Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

الیکشن 2024 میں وہ دو حلقے جہاں خواتین کا آپس میں سخت مقابلہ متوقع ہے

سائرہ افضل تارڑ سابق صدر رفیق تارڑ کی بہو اور افضل حسین تارڑ کی بیٹی ہیں (فوٹو: ن لیگ ایکس اکاؤنٹ)
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تمام سیاسی جماعتوں کو ہدایات جاری کی ہیں کہ جن سیاسی جماعتوں کو نشانات الاٹ کیے جا چکے ہیں وہ عام انتخابات میں جنرل نشستوں پر خواتین امیدواروں کی پانچ فیصد نمائندگی کو یقینی بنائیں۔ 
 ترجمان الیکشن کمیشن کے بیان کے مطابق سیاسی جماعتوں کو الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 206 کے تحت مقرر کردہ نشستوں پر خواتین کی نمائندگی یقینی بنانا لازم ہے۔ اس وقت الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق جنرل نشستوں پر کُل 5121 امیدوار الیکشن لڑ رہے ہیں جن میں 4806 مرد جبکہ 312 خواتین اور دو خواجہ سرا امیدوار شامل ہیں۔ الیکشن کمیشن نے تمام سیاسی جماعتوں کو مرد و خواتین امیدواروں کی لسٹ جمع کرانے کی بھی ہدایات کی ہیں۔
اس وقت پاکستان بھر میں کم ہی ایسے حلقے ہیں جن میں خواتین ہی آپس میں  مدمقابل ہوں۔ جو ٹکٹس دیے گئے ہیں وہاں اکثر خواتین کا مقابلہ مرد امیدواروں سے ہے، تاہم پنجاب کی ایک قومی اور ایک صوبائی اسمبلی کی نشست ایسی ہے جہاں خواتین کے مابین بھرپور مقابلے کی امید کی جا رہی ہے۔  
این اے 67 حافظ آباد سے پاکستان مسلم لیگ ن کی سائرہ افضل تارڑ اور تحریک انصاف کی حمایت یافتہ و نامزد آزاد امیدوار انیقہ مہدی حسن بھٹی مدمقابل ہیں۔ اس کے علاوہ منڈی بہاؤالدین کے صوبائی حلقے پی پی 40  سے دو خواتین مد مقابل ہیں۔ پی پی 40 سے پاکستان تحریک انصاف کی نامزد آزاد  امیدوار زرناب شیر اور مسلم لیگ ن کی حمیدہ وحید الدین ایک دوسرے کے مقابلے میں الیکشن لڑ رہی ہیں۔
 حافظ آباد سے پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز بھی کیا۔ انہوں نے سائرہ افضل تارڑ کو اپنی بہن کہہ کر مخاطب کیا۔ سائرہ افضل تارڑ سابق صدر رفیق تارڑ کی بہو اور افضل حسین تارڑ کی بیٹی ہیں۔  ان کے بھتیجے عطاء اللہ تارڑ لاہور کے حلقے این اے 127 سے  انتخابات لڑ رہے ہیں۔ عطاء اللہ تارڑ محمد فاروق تارڑ کے صاحبزادے جبکہ رفیق تارڑ کے پوتے ہیں۔
 میاں افضل حسین تارڑ نے 2008 میں اپنی بیٹی سائرہ افضل تارڑ کو   انتخابی میدان میں اتارا تھا۔ اب تک سائرہ افضل تارڑ اور شوکت علی بھٹی  تین بار آمنے سامنے آچکے ہیں جن میں سائرہ افضل تارڑ نے دو بار برتری حاصل کی ہے۔ اس بار  پی ٹی آئی کے متوقع امیدوار شوکت علی بھٹی ہی تھے، تاہم سیاسی مشکلات کے باعث انہوں نے اپنی بیٹی انیقہ مہدی حسن بھٹی کو میدان میں  اتارا، جبکہ پی ٹی آئی نے بھی انہیں ٹکٹ جاری کیا ہے۔
   گذشتہ عام انتخابات میں یہاں سے پی ٹی آئی کے امیدوار شوکت علی بھٹی نے سائرہ افضل تارڑ کو شکست دی تھی۔ سینئیر صحافی ماجد نظامی کے مطابق حافظ آباد میں تارڑ اور بھٹی خاندانوں کی سیاست کئی دہائیوں سے چلی آرہی ہے۔ ان کے بقول ’یہ خواتین سیاسی گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں اور یہ موروثی سیاست کا ہی نتیجہ ہے کہ یہ دونوں خواتین آمنے سامنے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود جنرل نشستوں پر خواتین کا میدان میں آنا لائق تحسین ہے۔‘
ماجد نظامی کے مطابق یہ خواتین سیاسی ورکرز تو نہیں ہیں، لیکن پھر بھی مردانہ حاکمیت والے معاشرے میں خواتین  کے انتخابی میدان میں آنے سے انہیں طاقت ملتی ہے۔ مبصرین کے مطابق خاندانی سیاست اور خواتین کے مقابلے کے باعث اس حلقے میں کانٹے دار مقابلے کی توقع کی جا رہی ہے۔

پی ٹی آئی نے سائرہ افضل تارڑ کے مقابلے میں انیقہ مہدی حسن بھٹی کو ٹکٹ جاری کیا ہے (فوٹو: پی ٹی آئی حافظ آباد)

صوبائی اسمبلی کے حلقے پی پی 40 منڈی بہاؤالدین سے پی ٹی آئی کے سابق ممبر صوبائی اسمبلی طارق محمود ساہی کی بیگم زرناب شیر اور مسلم لیگ ن کی حمیدہ وحید الدین میں بھی سخت مقابلے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ 
طارق محمود ساہی نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے، تاہم ان کے کاغذات مسترد ہونے کے بعد انہوں نے اپنی بیگم زرناب شیر کو میدان میں اتارا ہے۔ زرناب شیر بذات خود سیاست میں زیادہ  سرگرم نہیں رہیں، لیکن شوہر کے کاغذات مسترد ہونے کے بعد  انتخابات لڑ رہی ہیں، جبکہ ان کے مقابلے میں حمیدہ وحید الدین سابق ممبر صوبائی اسمبلی رہ چکی ہیں اور علاقائی سیاست میں بھی سرگرم ہوتی ہیں۔ حمیدہ وحید الدین  جاپان میں پیدا ہوئیں۔ پنجاب اسمبلی کی ویب سائٹ کے مطابق جاپان سے پاکستان آمد کے بعد حمیدہ وحید الدین نے اُردو سیکھی اور پھر عملی سیاست میں قدم رکھا۔ ان کے مقابلے میں زرناب شیر پہلی بار انتخابات لڑ رہی ہیں۔
 پی ٹی آئی کی جانب سے این اے 67 اور پی پی 40 میں جن دو خواتین کو ٹکٹ جاری کیا گیا ہے وہ دونوں پہلی بار انتخابی میدان میں کود رہی ہیں۔ اس حوالے سے سینیئر صحافی ماجد نظامی بتاتے ہیں کہ ’یہ دو خواتین  اس سے قبل گھریلوں کام کاج میں مصروف ہوتی تھیں، لیکن اس بار ان کے گھر کے سیاسی رہنماؤں کے کاغذات مسترد ہوگئے ہیں اس لیے یہ میدان میں ہیں۔‘
ان کے مطابق ’اس لیے یہ مقابلہ نہایت دلچسپ ہوگا۔ کیونکہ پاکستان میں ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ جنرل نشستوں پر خواتین آپس میں مقابلہ کر رہی ہوں۔  سیاسی حالات جیسے بھی ہوں لیکن یہ ایک بڑی کامیابی ہے کہ خواتین کو وہ جگہ ملی جہاں وہ عام انتخابات میں مقابلہ کر سکیں۔‘
 اب تک کی معلومات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف نے جنرل نشستوں پر 25 خواتین کی حمایت کرتے ہوئے ٹکٹس جاری کیے ہیں۔ جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن نے 16 خواتین کو میدان میں اتارا ہے جن میں مسلم لیگ ن کی چیف آرگنائزر مریم نواز شریف بھی شامل ہیں۔ باقی جماعتوں میں پاکستان پیپلز پارٹی نے دس، جمعیت علمائے اسلام نے دو، استحکام پاکستان پارٹی، جی ڈی اے  اور عوامی نیشنل پارٹی نے ایک، جماعت اسلامی نے سات، جبکہ ایم کیو ایم نے تین خواتین امیدواروں کو انتخابی میدان میں اتارا ہے۔ 

عائشہ بخش نے کہا کہ خواتین نظام اور معاشرے کو درست سمت پر لے جا سکتی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

سینیئر اینکر پرسن و صحافی عائشہ بخش نے اس حوالے سے اُردو نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں خواتین کا تناسب تقریباً مردوں کے برابر ہے۔ 
انہوں نے کہا کہ ’یہ بہترین اقدام ہے کہ خواتین جنرل نشستوں پر الیکشن لڑ رہی ہیں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگر خواتین سیاست میں مردوں کے مقابلے میں حصہ لیں اور یہ ثابت کریں کہ وہ سیاست کر سکتی ہیں اور ڈیلیور بھی کر سکتی ہیں تو یہ ایک بڑی کامیابی ہے۔‘
ان کے مطابق خواتین جب بہترین طریقے سے ایک گھر چلا سکتی ہیں تو وہ ایک نظام اور معاشرے کو درست سمت پر بھی لے جا سکتی ہیں۔
’خواتین نظام چلانے اور اس نظام میں رہتے ہوئے ڈیلیور کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں لیکن پاکستان میں خواتین کو سامنے آنے میں وقت لگا ہے۔ دھیرے دھیرے اس معاشرے کے مردوں کو  یہ احساس ہوا ہے کہ خواتین کو ایک طرف کر کے یہ معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا۔ مرد اور خواتین  ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور ان دونوں کے بغیر کوئی بھی معاشرہ نہیں چل سکتا۔‘
’خواتین نہ صرف جنرل نشستوں پر انتخاب لڑ رہی ہیں بلکہ  ایک سے زیادہ حلقوں میں مد مقابل بھی ہیں تو یہ قابل تحسین ہے۔‘ 

شیئر: