’ 1947 میں ابا ہجرت کرکے پاکستان آ گئے لیکن ان کے باقی بہن بھائی اور رشتے دار وہیں رہ گئے۔ وہ ہمیشہ اپنے خاندان کا ذکر اس محبت سے کرتے تھے کہ ہمارے دلوں میں ان کے لیے پیار اور احترام پیدا ہوا۔ کبھی خطوط کے ذریعے رابطہ ہوتا تھا جو 99 میں ابا کی وفات کے بعد ختم ہوگیا۔ 18 سال بعد ابا کے خاندان سے رابطہ بحال ہوا اور انھوں نے رشتے کی بات کی تو والدہ اتنی خوش تھیں کہ جیسے ان کے من کی مراد پوری ہوگئی ہو۔‘
یہ کہنا ہے پاکستان کے شہر راولپنڈی سے تعلق رکھنے والی حمیرا احمد کا جن کی شادی انڈین ریاست کیرالہ کے رہائشی اور ان کے چچا زاد عبدالرزاق کنومل سے ہوئی ہے۔
دونوں خاندانوں نے شادی کے لیے نیوٹرل مقام شارجہ کا انتخاب کیا۔ دلہا دلہن اور کچھ قریبی رشتے دار شارجہ میں جمع ہوئے اور ایک تقریب میں دونوں کا نکاح اور رخصتی ہوئی۔ جس کے بعد دونوں اب مستقل طور پر شارجہ میں ہی مقیم ہوگئے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
انڈین گلوکار ہنی سنگھ کا آبائی تعلق پاکستان کے کس شہر سے ہے؟Node ID: 828666
ویسے تو انڈیا پاکستان کے منقسم خاندانوں میں رابطے اور میل ملاقاتیں ہو ہی جاتی ہیں لیکن اس خاندان کے درمیان ملاقات بھی اس شادی کے موقع پر ہی ہوئی۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ حمیرا احمد کے والد احمد کنومل تقسیم ہند کے وقت پاکستان آ گئے اور یہاں پہنچ کر انھوں نے اپنے خاندان سے بذریعہ خط رابطہ رکھا۔ ڈاک کا نظام سست ہونے کی وجہ سے سال میں ایک آدھ خط کا ہی تبادلہ ہوتا تھا۔ لیکن وہ اپنے بچوں کو اپنے خاندان کے بارے میں غائبانہ طور پر تعارف کراتے رہتے تھے۔ لیکن وہ اپنی زندگی میں دوبارہ کبھی انڈیا نہیں جا سکے اور نہ ہی کوئی انڈیا سے پاکستان آیا۔
1999 میں حمیرا احمد کے والد وفات پاگئے تو سالانہ بنیادوں پر ہونے والا رابطہ بھی ختم ہوگیا۔ اس کی ایک وجہ گھر بدلنا بھی تھا لیکن یہاں سے بھی جو خط گیا اس کا جواب آنا بھی بند ہوگیا۔ تاہم حمیرا کے خاندان کو یہ معلوم تھا کہ ان کے ایک کزن امارات میں مقیم ہیں ان کا ایک نمبر بھی گھر میں کسی ڈائری میں لکھا ہوا تھا۔
اس حوالے سے حمیرا احمد نے بتایا کہ 2017 میں ان کے بھائی آصف احمد پہلی بار دبئی گئے تو اپنے کزن کا نمبر لے کر گئے۔ وہاں جا کر رابطہ بھی کیا اور ڈھونڈنے کی کوشش بھی کی لیکن کوئی کوشش کامیاب نہ ہوئی۔ سوشل میڈیا پر تلاش بھی اس وجہ سے کامیاب نہ ہو سکی کہ کیرالہ میں مقیم خاندان میں سے کوئی بھی فیس بک یا کسی اور پلیٹ فارم پر موجود نہ تھا۔‘
ایک ہزار ای میلز اور رابطہ بحال
انھوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ’2018 میں ایک دن بھائی اپنی یاہو ای میل جسے وہ تقریباً چھوڑ چکے تھے ویسے ہی دیکھنے لگے تو وہاں پر ایک ای میل جو چار پانچ روز پہلے ہی موصول ہوئی تھی اس کھولا تو ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔ ای میل میں لکھا ہوا تھا کہ اگر آپ کا نام یہ ہے اور آپ کے والد کا نام یہ ہے اور والدہ کا نام یہ اور آپ راولپنڈی میں اس ایڈریس پر رہتے ہیں یا رہتے رہے ہیں تو جواب دیں۔‘

ان کے مطابق ’جب ہم نے واپس رابطہ کیا اور اپنا واٹس ایپ نمبر دیا تو یوں ہمارا رابطہ جو خط پر ختم ہوا تھا ویڈیو کال پر بحال ہوا۔ میرے کزن نے بتایا کہ انھوں نے اپنے ایک دوست کو نام بتا کر کہا کہ مجھے اس نام کے بندے کا ای میل ڈھونڈ کر دو۔ اس طرح اس دوست نے میرے نام سے متعلق ایک ہزار ای میل ایڈریس شارٹ لسٹ کیے اور ان سب پر ای میل بھیجا جو میں نے اتفاقاً دیکھ لی۔‘
حمیرا کے بھائی آصف احمد کے مطابق ’جب یہ رابطہ بحال ہوا تو میری والدہ ساتھ بیٹھی تھیں۔ میں نے ان کو یہ خبر سنائی تو وہ خوشی کے مارے رونے لگ گئیں۔ ان کو ہمارے مرحوم والد اور اپنے شوہر کے خاندان سے رابطہ بحال ہونے کی بے حد خوشی تھی۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’اس رابطہ پر دونوں خاندانوں کو یہ معلوم ہوا کہ یہاں ہمارے والد اور انڈیا میں ہمارے چچا دونوں ہی اس دنیا سے جا چکے ہیں۔ جس وجہ سے بھی دونوں بھائیوں کی اولاد ایک دوسرے کے قریب آنے لگی۔‘
’مرحومہ والدہ کی خواہش پر ناممکن کو ممکن بنا دیا‘
حمیرا احمد نے بتایا کہ ’جب دونوں خاندانوں میں رابطے بحال ہوئے اور ایک دوسرے کو دیکھنے اور جاننے لگے تو والد کی بتائی ہوئی باتیں بھی یاد آتیں۔
باہمی محبت اور احترام بھی تھا۔ جب میرے شوہر عبدالرزاق کی بہنوں کو میرے بارے میں معلوم ہوا تو انھوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ یہ شادی ہونی چاہیے۔ لیکن میرے بھائی یہ کہتے تھے کہ دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کے باعث یہ ممکن نہیں ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ابھی یہ بات چیت جاری ہی تھی کہ 2022 میں میری والدہ کا انتقال ہوگیا۔ یوں یہ بات چیت تقریباً ختم ہوگئی لیکن کچھ عرصہ پہلے بھائی نے اس سلسلے کو آگے بڑھانے کی بات کی تو میں نے پوچھا کہ آپ تو اس کے حق میں نہیں تھے تو انھوں نے جواب دیا کہ امی کی خواہش کو پورا کرنا ہے۔‘
حمیرا کے بھائی آصف احمد نے بتایا کہ ’والدہ نے اپنی وفات سے کچھ عرصہ پہلے مجھے کہا تھا کہ مجھے اپنی بیٹی کی شادی اس کے چچا زاد عبدالرزاق سے کرنی ہے اور اس کے لیے پیسوں کا بندوبست کرو۔ والدہ نے ہی تجویز دی کہ اگر وہ پاکستان یا ہم انڈیا نہیں جا سکتے تو ان کو شارجہ بلا لو وہاں پر ہی شادی کر دو ہم سب بھی وہیں جائیں گے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’والدہ کی اچانک وفات کے بعد مجھے اس بات کا شدت سے احساس ہونے لگا کہ یہ والدہ کی خواہش تھی جسے پورا کرنا چاہیے۔ اس طرح میں نے اپنے بھائی بہنوں سے مشورے کے بعد بہن کو لے کر شارجہ لے گیا اور اپنے چچا کے خاندان کو بلا کر ان کی شادی کر دی۔‘
’مجھے خوشی ہے کہ ایک میں نے اپنا فرض ادا کیا اور دوسرا اپنی والدہ کی خواہش پوری کرنے کے لیے ناممکن کو ممکن بنا دیا ہے۔‘
دُلہے کو اردو اور ہندی اور دُلہن کو ملیالم نہیں آتی۔
حمیرا احمد نے بتایا کہ اگرچہ مجھے ملیالم نہیں آتی اور عبدالرزاق کو اردو اور ہندی نہیں آتی اس کے باوجود ہمیں بات کرنے میں مشکل نہیں ہوتی۔
’ہم دونوں زیادہ تر انگریزی میں بات کرتے ہیں لیکن ہندی فلموں کی وجہ سے عبدالرزاق کو اردو سمجھنے میں آسانی ہے۔ چونکہ ہم دونوں خاندانوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے احترام اور پیار ہے تو زبان کا مختلف ہونا ہمارے لیے کبھی بھی مسئلہ نہیں بنا اور با آسانی گفتگو کرسکتے ہیں۔‘
