الیکشن 2024: نوجوان اپنے نمائندوں سے کیا چاہتے ہیں؟
الیکشن 2024: نوجوان اپنے نمائندوں سے کیا چاہتے ہیں؟
جمعرات 25 جنوری 2024 5:26
ادیب یوسفزئی - اردو نیوز، لاہور
پاکستان میں عام انتخابات کے انعقاد میں تقریباً دو ہفتے رہ گئے ہیں اور سیاسی جماعتیں بھی پورے جوش و خروش کے ساتھ انتخابی مہم میں مصروف ہیں۔ اس دوران کئی جماعتوں کی کوشش ہے کہ وہ ملک کے نوجوان طبقے کو اپنے امیدواروں کے حق میں ووٹ ڈالنے پر مائل کریں۔
پاکستان میں پہلی ڈیجیٹل مردم شماری کے اعدادوشمار کے مطابق ملک کی مجموعی آبادی 24 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے جس میں تقریباً 12 کروڑ 70 لاکھ رجسٹرڈ ووٹرز ہیں۔ ان میں عمر کے تناسب سے سب سے زیادہ ووٹ 18 سے 35 سال کے نوجوانوں کے ہیں جن کی تعداد تقریباً پانچ کروڑ 71 لاکھ ہے۔
آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات میں نوجوانوں کے ووٹوں کو ایک ٹرننگ پوائنٹ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے کیونکہ گذشتہ عام انتخابات میں نوجوانوں ووٹرز کی تعداد تقریباً چار کروڑ 64 لاکھ تھی۔ یعنی ان پانچ برسوں میں تقریباً ایک کروڑ نئے ووٹرز رجسٹرڈ ہوئے ہیں۔
ان نئے ووٹرز کا حالیہ عام انتخابات میں کردار کتنا اہم ہوسکتا ہے اور یہ نوجوان امیدواروں سے کیا چاہتے ہیں؟ ان سوالوں کے جواب تلاش کرنے کے لیے اُردو نیوز نے پاکستان کی بڑی جامعات میں سے ایک پنجاب یونیورسٹی سمیت دیگر جامعات کا رخ کیا۔
پنجاب یونیورسٹی میں ملک بھر سے طلبا آتے ہیں۔ یہاں چاروں صوبوں کی نمائندگی کرنے والے نوجوان موجود ہیں۔
یہ نوجوان طلبا کس نمائندے کو منتخب کرنا چاہتے ہیں اور ان سے اِن کی کیا امیدیں وابستہ ہیں؟
پاکستان میں پہلی ڈیجیٹل مردم شماری کے اعدادوشمار کے مطابق 18 سے 35 سال کے نوجوانوں کی تعداد تقریباً پانچ کروڑ 71 لاکھ ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
جامعہ پنجاب میں زیرِتعلیم بلوچستان کے معین کاکڑ نے کہا کہ ’میں ایک ایسے نمائندے کا انتخاب کروں گا جو عوام میں سے ہو اور سرمایہ دار نہ ہو۔ وہ نمائندہ جس کو مسائل کا علم ہو اور تعلیم یافتہ بھی ہو۔ اسی طرح میرے منتخب کردہ نمائندے میں مسائل کو حل کرنے کی اہلیت بھی ہو۔‘
ان کے مطابق جو نمائندے سرمائے کے بل پر منتخب ہوتے ہیں وہ کسی بھی علاقے کے بنیادی مسائل کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔
بلوچستان کے ہی محمد اولیا چاہتے ہیں کہ ’اُن کے منتخب نمائندے بلوچوں اور پشتونوں کے مسائل پر توجہ دیں۔‘
کوئٹہ کی رہائشی ہیرا اپنے نمائندے سے تعلیم، بےروزگاری، اور معاشی ترقی کے لیے کام کرنے کی امید رکھتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’میں چاہتی ہوں کہ میرے حلقے سے جو بھی امیدوار منتخب ہو، وہ ہماری تعلیم کے ساتھ ساتھ ہماری معاشرتی اور معاشی ترقی پر بھی توجہ دے۔ میں چاہتی ہوں کہ وہ شفافیت، احتساب اور گورننس پر بھی توجہ دے۔‘
بلوچستان کے نوجوان طلبا سے گفتگو کے بعد یہ معلوم ہوا کہ وہ اپنے علاقے میں معاشی اور معاشرتی اعتبار سے توازن و استحکام چاہتے ہیں۔
معین کاکڑ کے مطابق جو نمائندے سرمائے کے بل پر منتخب ہوتے ہیں وہ کسی بھی علاقے کے بنیادی مسائل کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ (فوٹو: معین کاکڑ)
پنجاب کے مختلف علاقوں سے آئے نوجوان طلبا سیاسی نمائندوں سے وسیع پیرائے میں اُمیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں۔
علینہ اختر اس بار عام انتخابات میں پہلی بار اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گی۔ وہ چاہتی ہیں کہ ’ان کے منتخب نمائندے ملک کے معاشی استحکام کے لیے اقدامات کریں۔‘
انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں کسی سیاسی جماعت کی بات نہیں کرنا چاہتی لیکن جو بھی میرا نمائندہ ایوان بالا تک پہنچے وہ سب سے پہلے ہمارے پڑوسی ممالک سے تعلقات استوار کرے تاکہ ہماری معیشت بہتر ہو سکے۔ جب ہماری تجارت بہتر ہو گی تو سرمایہ آئے گا اور ہماری معیشت بہتری کی جانب گامزن ہو گی۔‘
وہ اس کے ساتھ ساتھ تعلیمی معیار بہتر کرنے کے حوالے سے بھی اپنے منتخب نمائندے کے کردار کو اہم تصور کرتی ہیں۔
لاہور کی رہائشی شوال راؤ ان دنوں بیرون ملک جانے کا سوچ رہی ہیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ پاکستان میں سیاسی نمائندے آپسی لڑائیوں کی بجائے اگر عملی اقدامات پر توجہ دیں تو انہیں ملک چھوڑنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔
علینہ اختر چاہتی ہیں کہ ’ان کے منتخب نمائندے ملک کے معاشی استحکام کے لیے اقدامات کریں۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)
شوال راؤ کے مطابق ’آج کئی نوجوان ملک چھوڑنے کا سوچ رہے ہیں۔ مجھے اپنے ملک سے محبت ہے لیکن جب میں اپنے اخراجات ہی پورے نہیں کر سکوں گی تو میں کیسے زندگی گزاروں گی؟ وہ چاہتی ہیں کہ انتخابات شفاف طریقے سے ہوں اور انصاف پر مبنی فیصلے ہوں تو ملک ترقی کی جانب گامزن ہو گا۔‘
پنجاب کے ضلع لیہ سے تعلق رکھنے والے نوید بلوچ بھی پہلی بار اپنا ووٹ استعمال کریں گے۔
وہ پڑھنے اور کام کی تلاش میں لیہ سے لاہور آئے تھے۔ ان کے مطابق حکومت اور ان کے منتخب نمائندے کو شہروں کے ساتھ ساتھ پسماندہ علاقوں پر بھی توجہ دینی چاہیے۔
نوید بلوچ کا کہنا تھا کہ لاہور میں وہ تمام وسائل موجود ہیں جو لیہ جیسے چھوٹے شہر میں نہیں ہیں۔ وہاں یونیورسٹیز تو ہیں لیکن تعلیم کا معیار اور سہولیات ایسی نہیں ہیں جیسی لاہور میں ہیں۔ جس طرح لاہور میں سکلز سینٹرز ہیں ویسے ہی لیہ میں بھی سرکاری سطح پر ہونے چاہییں۔
’وہ اُس نمائندے کو ووٹ دیں گے جو ان کے علاقے میں ٹیکنالوجی پارکس بنائے اور جاب فیئرز منعقد کر سکے۔‘
کراچی سے تعلق رکھنے والے علی بہادر خان بتاتے ہیں کہ اُن کو اب سندھ کے تمام مسائل ازبر ہو گئے ہیں۔ (فوٹو: علی بہادر خان)
خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے جہانگیر خان پُرامید ہیں کہ وہ ان انتخابات میں میں اُن نمائندوں کو منتخب کریں گے جو معاشرے میں بہتری کی نوید لے کر آئے۔
’میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے سیاستدانوں کو نئی سوچ کے ساتھ سامنے آنا چاہیے۔ روایتی انداز میں گلیاں اور سڑکیں تعمیر کرنے کے وعدے کھوکھلے ہو چکے ہیں۔ ہمیں وہ لوگ چاہییں جو سسٹم میں رہ کر سسٹم کی کوتاہیوں کو حل کریں اور ہمارے لیے ہر حوالے سے نئی سمتیں دریافت کریں۔‘
ظہیر الاسلام شہاب کا تعلق خیبر پختونخوا کے علاقے شانگلہ سے ہے۔ وہ بھی جہانگیر خان سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’میں بطور ایک نئے ووٹر کے سیاسی نمائندگان سے یہ امید رکھتا ہوں کہ وہ اپنے ذاتی مفاد کی بجائے اس ملک اور اس ملک میں رہنے والے ان کروڑوں شہریوں کا سوچیں جو گوناگوں مسائل کا شکار ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’عدم جمہوریت، بدامنی، بےروزگاری، غیرملکی طاقتوں کا ملکی معاملات میں بڑھتا ہوا اثر و رسوخ، بنیادی سہولیات جیسے روٹی، کپڑا، صاف پانی اور مکان کے حصول کے سلسلے میں بے پناہ دشواریاں، ابتر نظام تعلیم، مذہبی انتہا پسندی، مہنگائی، چھوٹے صوبوں کے ساتھ امتیازی سلوک وغیرہ جیسے مسائل فوری طور پر حل طلب ہیں۔‘
آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات میں نوجوانوں کے ووٹوں کو ایک ٹرننگ پوائنٹ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ (فوٹو: اردو نیوز)
ظہیر الاسلام سمجھتے ہیں کہ ان کے نمائندے اگر ان مسائل پر توجہ دے کر حل نہیں نکال سکتے تو انہیں ایوان تک پہنچنے کا بھی کوئی حق حاصل نہیں۔
وزیرستان کی بشریٰ یوسف کا کہنا تھا کہ ’وہ اس بار پہلی بار ووٹ ڈالنے کے لیے پرجوش ہیں۔‘
’میں سمجھتی ہوں کہ میرے ووٹ سے بڑا فرق پڑ سکتا ہے، جو امیدوار صحت اور تعلیم کے شعبے میں کام کرنا چاہے گا وہی میرے ووٹ کا حقدار ہو گا۔‘
کراچی سے تعلق رکھنے والے علی بہادر خان بتاتے ہیں کہ اُن کو اب سندھ کے تمام مسائل ازبر ہو گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’کراچی اور پورے سندھ کے مسائل سے ہم واقف ہو چکے ہیں۔ گذشتہ کئی برسوں سے ہم نے سڑکیں کھنڈرات بنتے ہوئے دیکھی ہیں، بجلی گھروں کو مافیا کی نذر ہوتے اور عوام کو پانی کی بوند بوند کے لیے ترستے دیکھا ہے۔ گیس نہ ہونے پر چولہے بجھتے دیکھے ہیں۔ اس لیے اب ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اِن تمام مسائل کی وجہ صوبے میں لاقانونیت، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور مافیاز كا آئے روز مضبوط ہونا ہے۔ ہم اُسی امیدوار کو ووٹ دیں گے جو ان تمام مسائل کا خاتمہ کرے جو بدقسمتی سے اس وقت کوئی نہیں ہے۔‘
جہانگیر خان نے کہا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے سیاستدانوں کو نئی سوچ کے ساتھ سامنے آنا چاہیے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان بھر کے نوجوان اس وقت نئی قیادت کے خواہاں ہیں جو ان کی امنگوں پر پورا اترے۔ تاہم پاکستان کے چاروں صوبوں کے نوجوان کی مختلف ترجیحات ہیں اور وہ اپنے متعلقہ نمائندے کے سامنے مختلف مطالبات رکھ رہے ہیں۔
مبصرین کے مطابق اس بار نوجوانوں کا ووٹ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اینکر پرسن فیصل عباسی کے مطابق اس وقت سیاستدان بھی نوجوانوں پر نظرے جمائے ہوئے ہیں۔
انہوں نے مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’آپ نے دیکھا ہو گا کہ گذشتہ روز جلسے میں نواز شریف نے ایک سوال پوچھا کہ 30 سال سے کم عمر والے اور 30 سال سے زیادہ عمر والے کتنے ہیں؟ تو اس کا مقصد یہی تھا کہ وہ جاننا چاہتے تھے کہ نوجوان کس جماعت کے ساتھ ہیں۔‘
فیصل عباسی نوجوانوں کے ووٹوں کو گیم چینجر اور ٹرننگ پوائنٹ قرار دیتے ہیں۔
’نوجوان کا ووٹ ہی اس بار کامیابی کا تعین کرے گا۔ لیکن سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ اس بار کون سی سیاسی جماعت نوجوانوں کی بڑی تعداد کو گھروں سے باہر نکال پائے گی؟‘