Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلاول بھٹو زرداری کی پاکستان تحریک انصاف کے آزاد اُمیدواروں پر نظر

بلاول بھٹو اپنے جلسوں میں بار بار کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف کو چوتھی بار وزیراعظم بنانے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا (فوٹو: پی پی پی، سوشل میڈیا)
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری انتخابی ریلیوں سے خطاب کے دوران تواتر سے دعوٰی کر رہے ہیں کہ اگلا وزیراعظم ان کی جماعت سے ہو گا اور وہ خود کو اس منصب کے اُمیدوار کے طور پر بھی پیش کر چکے ہیں۔ 
وہ اپنے جلسوں میں بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف کو چوتھی مرتبہ وزیراعظم بنانے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہو گا اور عوام اگر ان کو ایک مرتبہ وزیراعظم بننے کا موقع دیں تو وہ ملک کی تقدیر بدل دیں گے۔ 
منگل کے روز بھی چنیوٹ میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ ’نواز شریف اگر چوتھی مرتبہ وزیراعظم بن بھی گئے تو وہ پھر ان کو لانے والوں سے لڑائی کریں گے اور انتقام کی سیاست کریں گے۔‘
بلاول بھٹو اپنی تقریروں میں پاکستان تحریک انصاف کے ووٹرز کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے بھی منفرد حکمت عملی اپنائے ہوئے ہیں اور نہ صرف یہ کہ عمران خان پر کم اور مسلم لیگ ن اور نواز شریف پر زیادہ تنقید کر رہے ہیں بلکہ پی ٹی آئی کے حامیوں کو کھلم کھلا دعوت دے رہے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ مل کر تیر کے ذریعے شیر کا شکار کریں کیونکہ بلا اب میدان میں نہیں رہا۔
تو کیا بلاول کے وزیراعظم بننے کے دعوؤں کے پیچھے یہ منصب پانے کے لیے سنجیدہ کوششیں بھی ہو رہی ہیں؟ 
بظاہر قرائن بتاتے ہیں کہ اگرچہ پیپلز پارٹی کی پوزیشن کمزور ہے اور اس کے لیے آٹھ فروری کے انتخابات کے بعد قومی اسمبلی میں اکثریتی جماعت بننا ممکن نہیں ہے لیکن اس کی جماعت کی قیادت کچھ اس طرح کے حساب کتاب میں مصروف ہے کہ انتخابات کے بعد ایک مخصوص صورتحال میں وزارتِ عظمٰی کی طرف موثر پیش قدمی ممکن بنائی جائے۔ 
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار شاہ زیب جیلانی اس امکان کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس مرتبہ پیپلز پارٹی صوبہ سندھ سے بڑی اکثریت لے کر سامنے آئے گی۔ 

بلاول بھٹو پی ٹی آئی کے حامیوں کو بھی دعوت دے رہے ہیں کہ وہ ’شیر کے شکار‘ میں ان کا ساتھ دیں (فوٹو: اے ایف پی)

اُردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے شاہ زیب جیلانی کا کہنا تھا کہ ’پیپلزپارٹی کا سندھ میں اثر ماضی کی نسبت بڑھا ہے۔ انہوں نے مخالفین کو یا بہت کمزور اور غیر متعلق کر دیا ہے اور کچھ زیادہ مضبوط اور طاقتور مخالفین تھے تو انہیں اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔‘ 
انہوں نے کہا کہ ’پیپلز پارٹی کی سب سے بڑی مخالفت مسلم لیگ فنکشنل سے آتی تھی، ان کا اثر اور نشستیں اب کم ہو چکی ہیں۔‘
آصف زرادری نے فریال تالپور کے ساتھ مل کر ایک نئی پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی ہے جو نہ صرف پہلے سے زیادہ طاقتور ہے بلکہ انہوں نے سندھ کی بیوروکریسی کو پیپلزپارٹی کی راہ ہموار کرنے کے لیے بھی بڑے موثر طریقے سے استعمال کیا ہے۔ 
ان کے بقول ’پیپلز پارٹی کی مشینری نے انتخابات لڑنے میں ماسٹرز کر لیا ہے۔ پھر ایک طبقہ ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ پیپلز پارٹی نے ان کو فائدہ پہنچایا ہے۔‘
شاہزیب جیلانی نے کہا کہ ’لاکھوں لوگ جن کے سیلاب میں گھر اُجڑ گئے، وہ حلقے جن کی خواتین کو بینظیر انکم سپورٹ سے ماہانہ مدد ملتی ہے، سیلاب میں جن کے گھر تباہ ہوئے انہیں تین، تین لاکھ روپے ملے ہیں، لاکھوں لوگوں کے گھر بننا شروع ہو گئے ہیں۔ یہ لوگ یقینی بناتے ہیں کہ قطاروں میں لگ کر تیر پر ٹھپہ لگائیں۔‘ 

شاہ زیب جیلانی کہتے ہیں کہ آصف زرادری نے فریال تالپور کے ساتھ مل کر ایک نئی پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

پنجاب سے کم ازکم 35 نشستوں کی ضرورت
سندھ سے زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرنا ایک طرف لیکن اس کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی ایک ایسے منصوبے پر بھی کام کر رہی ہے کہ وہ صوبہ بلوچستان، خیبر پختونخوا اور پنجاب سے بھی اتنی نشستیں حاصل کر سکے کہ وہ انتخابات کے نتائج آنے کے بعد حکومت بنانے کے لیے بچھنے والی بساط پر بہتر پوزیشن میں ہو۔
تجزیہ کار جی ایم جمالی کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی مخصوص نشستیں ملا کر سندھ سے 55 کے قریب نشستیں حاصل کر سکتی ہے جس کے بعد اگر وہ دوسرے صوبوں سے زیادہ نمبرز حاصل کر لیتی ہے تو مرکز میں دوسری جماعتوں کے ساتھ اتحاد بنا کر مقابلے میں آ سکتی ہے۔    
’یہ بلوچستان سے سات تک نشستیں حاصل کر سکتے ہیں اور خیبر پختونخوا سے بھی پیپلز پارٹی کے چار کے قریب امیدوار کامیاب ہو سکتے ہیں۔ لیکن انہیں اپنا حقیقی کھیل بنانے کے لیے پنجاب سے 35 کے قریب نشستیں حاصل کرنا پڑیں گی، اس کے بغیر یہ اپنا کھیل نہیں بنا سکتے۔‘ 
تحریک انصاف کے آزاد کامیاب ہونے والے اُمیدواروں پر نظر 
پیپلز پارٹی کے قریبی حلقوں کے مطابق اپنے امیدوار کامیاب کروانے کے ساتھ ساتھ اس جماعت کی دوسری پارٹیوں اور آزاد حیثیت میں کامیاب ہونے والے اُمیدواروں پر بھی نظر ہے اور یہی وہ پوشیدہ کڑی ہے جس کی بنیاد پر پیپلز پارٹی یہ سمجھ رہی ہے کہ یہ اگر اس کے ہاتھ آ گئی تو وہ مرکزی حکومت کی تشکیل میں مسلم لیگ ن کو سخت مزاحمت فراہم کر سکتی ہے۔

جی ایم جمالی کا کہنا ہے پیپلز پارٹی مخصوص نشستیں ملا کر سندھ سے 55 کے قریب نشستیں حاصل کر سکتی ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

بلاول بھٹو زرادری نپے تلے انداز میں اپنی یہ حکمت عملی کسی حد تک زیر بحث بھی لا چکے ہیں اور باضابطہ طور پر یہ کہہ چکے ہیں کہ آصف زرداری آزاد اراکین اسمبلی اور دوسری جماعتوں کے نمائندوں کو ساتھ ملانے کے لیے انتخابات کے بعد ایکشن میں نظر آئیں گے۔ 
ان کے اس بیان کے پیچھے وہ توقعات ہیں جن کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے آزاد حیثیت میں کامیاب ہونے والے اُمیدواروں کی بڑی تعداد حلف اٹھانے کے بعد پیپلز پارٹی سے جا ملے گی۔ 
لیکن سیاسی مبصرین کے مطابق ان تمام کوششوں کے باوجود پیپلز پارٹی اتنے اراکین اکٹھے نہیں کر سکے گی جو اس کو اپنا جیالا وزیراعظم بنوانے کے لیے درکار ہیں۔
سندھ کے سینیئر صحافی رشید میمن کے خیال میں پیپلز پارٹی اس صوبے سے زیادہ سے زیادہ 44 نشستیں جیت سکے گی جن میں سے اندرون سندھ کے 37 اور کراچی کے سات حلقے شامل ہیں۔ 
رشید میمن کے مطابق ’پیپلز پارٹی کسی صورت بھی مرکز میں حکومت بنانے کے قابل نہیں ہو گی۔‘
وزارت عظمٰی کا دعوٰی ووٹ حاصل کرنے کا طریقہ 
حلقوں کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے اسلام آباد کے صحافی احمد اعجاز بھی  پیپلز پارٹی کی حکمت عملی کو کامیاب ہوتا نہیں دیکھتے۔
’بلاول بھٹو کی وزیراعظم بننے کی باتیں محض ایک انتخابی حکمت عملی اور جگہ حاصل کرنے کی کوشش ہے۔ یہ لوگوں کو اُکسانے کی ایک کوشش ہے کہ پیپلز پارٹی کو ووٹ دو کیونکہ اگلا وزیراعظم پیپلز پارٹی کا ہو گا۔‘ 
احمد اعجاز کا کہنا تھا کہ ’مسلم لیگ نواز عمران خان جبکہ پیپلز پارٹی نواز لیگ پر تنقید کر کے جگہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔‘

تجزیہ نگاروں کے مطابق پی پی پی کی نظر تحریک انصاف کے آزاد طور پر کامیاب ہونے والے امیدواروں پر بھی ہے (فوٹو: پی ٹی آئی، سوشل میڈیا)

ملتان کی تین سیٹوں پر پیپلز پارٹی کی کامیابی کے امکانات؟
احمد اعجاز کے مطابق اس وقت پاکستان میں انتخابات کا ماحول نظر نہیں آ رہا اور ایک جماعت کے امیدواروں کو اپنی مہم چلانے کی آزادی نہیں مل رہی جس کی وجہ سے کوئی بھی تجزیہ موثر ثابت نہیں ہو گا۔ 
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ملتان میں پیپلز پارٹی کے تین نشستوں پر امیدوار ایسے ہیں جن کے مخالفین مناسب انتخابی مہم نہیں چلا پا رہے۔
’دو نشستوں پر یوسف رضا گیلانی کے بیٹے عبدالقادر گیلانی اور موسیٰ گیلانی کا مقابلہ شاہ محمود قریشی کے بیٹے زین قریشی اور بیٹی مہربانو قریشی کر رہے ہیں جن کا خاندان اس وقت زیر عتاب ہے۔ تو کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان تین نشستوں پر پیپلز پارٹی جیت رہی ہے اور وہ یہ تین حلقے حاصل کر لے گی؟‘ 

شیئر: