Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان سے بیرون ملک جانے والے 44 ہزار افراد کو کیوں آف لوڈ کیا گیا؟

کمیٹی نے آف لوڈ کیے گئے 44 ہزار پاکستانیوں کے بارے میں وزارت داخلہ سے رپورٹ بھی طلب کرلی۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان سے سالانہ ہزاروں کی تعداد میں شہری غیر قانونی طور پر یورپ اور امریکہ جانے کی کوشش کرتے ہیں اور ان میں سے ایک بڑی تعداد بیرون ملک جانے میں کامیاب ہوتی ہے جب کہ باقیوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
دوسری جانب ملک سے باہر جانے والے جرائم پیشہ افراد اور بیرون ممالک جانے کی اہلیت نہ رکھنے والے شہریوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
سال 2021 سے 2023 تک 44 ہزار ایسے پاکستانی شہریوں کو مختلف ایئرپورٹس سے بیرون ملک جانے سے روک دیا گیا۔
کنوینئر سینیٹر رخسانہ زبیری کی زیر صدارت سینیٹ کی ذیلی کمیٹی برائے سمندر پار پاکستانیز کا اجلاس ہوا جس میں وزارت داخلہ کے حکام نے کمیٹی کو بیرون ممالک جانے والے شہریوں کے معاملے پر بریفنگ دی۔
وزارت داخلہ کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ سال 2021 سے 2023 تک 44 ہزار افراد کو مختلف ایئرپورٹس پر آف لوڈ کیا گیا۔ ان افراد کو مختلف وجوہات کی بنیاد پر آف لوڈ کیا گیا ہے۔

شہریوں کو آف لوڈ کرنے کی وجوہات کیا تھیں؟

قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ شہریوں کو آف لوڈ جعلی دستاویزات رکھنے، جرائم پیشہ ہونے، منشیات کے کیسز اور ای سی ایل میں نام ہونے پر کیا گیا۔
ایئرپورٹ پر ایف آئی اے اور دیگر ادارے ایسے مسافروں کو آف لوڈ کرتے ہیں۔
وزارت داخلہ کے حکام کے مطابق 44 ہزار لوگوں کے خلاف بنائے گئے کیسز پراسس میں ہیں۔ اگر کسی نے پاسپورٹ غلط بنایا ہے تو متعلقہ ایکٹ کے تحت سزائیں ہیں۔
کنوینر کمیٹی نے حکام کو جرائم پیشہ شہریوں کو باہر بھیجنے والے مافیاز کی تفصیلات فراہم کرنے کی ہدایت کر دی۔
کمیٹی نے آف لوڈ کیے گئے 44 ہزار پاکستانیوں کے بارے میں وزارت داخلہ سے رپورٹ بھی طلب کرلی۔

کمیٹی نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی کہ ملک سے بھکاریوں اور جسم فروشی کرنے والوں کو بیرون ملک جانے سے روکا جائے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

وزارت سمندر پار پاکستانیز نے اجلاس کو بتایا کہ  پاکستان سے بیرون ممالک بھیک مانگنے اور جسم فروشی کے لیے جانے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
وزارت کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ جرائم پیشہ لوگ بھی  قانونی دستاویزات سمیت ہمارے پاس آتے ہیں جس کے بعد ہمارے پاس کارروائی کا اختیار نہیں رہتا۔
کمیٹی نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی کہ ملک سے بھکاریوں اور جسم فروشی کرنے والوں کو بیرون ملک جانے سے روکا جائے۔
رخسانہ زبیری نے استفسار کیا کہ کیا ایسے افراد کے لیے متبادل کاروبار شروع نہیں کیا جا سکتا؟ جس پر وزارت سمندر پار پاکستانی کے حکام نے بتایا کہ بھیک مانگنے والے اور جسم فروشی کرنے والے عادی ہوتے ہیں اور وہ کوئی متبادل کاروبار یا کام نہیں کرنا چاہتے۔
کمیٹی میں اوورسیز پاکستانی ورکرز کو درپیش مشکلات کا معاملہ بھی زیر غور آیا۔ کنوینر نے بے روزگار نوجوانوں کو ٹریننگ سینٹرز سے ٹریننگ دینے کی تجویز دی اور کہا کہ ہمیں بے روزگاری کے مسئلے کا حل تلاش کرنا ہوگا۔
وزارت صحت حکام نے کمیٹی کو بریفنگ میں بتایا کہ حکومت کی طرف سے فراہم کی گئی سہولیات میں مختلف کیٹیگریز کے انسٹیٹیوٹ ہیں جہاں شہریوں کو مختلف ٹریننگز دی جا رہی ہیں۔
یاد رہے پاکستان سے صرف گزشتہ سال 10 لاکھ کے قریب افراد بیرون ممالک گئے۔ جن میں سے ایک بڑی تعداد مزدور پیشہ افراد کی ہے۔ بیرون ممالک جانے والے شہریوں میں تعلیم یافتہ اور ہنرمند نوجوان بھی شامل ہیں۔

شیئر: