Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا پیپلز پارٹی سندھ کے شہری علاقوں میں بھی سرپرائز دے گی؟

’بلدیاتی الیکشن میں کامیابی کے بعد پی پی پی مہاجر علاقوں سے کامیابی کے لیے کوشاں ہے‘ (فائل فوٹو: بلاول بھٹو فیس بُک)
سنہ 2017 میں کراچی کے حلقہ پی ایس 114 میں ضمنی انتخاب ہوا، الیکشن کمیشن کے جاری کردہ نتائج کے مطابق ’پاکستان پیپلز پارٹی نے ضلع شرقی کے علاقے محمودآباد سے ایم کیو ایم کے امیدوار کو شکست دے دی ہے۔‘
یہ خبر کراچی ہی نہیں بلکہ ملک بھر کے اخبارات کی زینت بنی، یہ اُن دنوں کی بات ہے جب ایم کیو ایم نے اپنے بانی الطاف حسین سے علیحدگی کے بعد دوسرے انتخابی معرکے میں حصہ لیا تھا۔ 
اس نشست سے پی پی پی کے امیدوار سعید غنی کامیاب ہوئے تھے اور اُن کے مقابلے میں ایم کیو ایم کے امیدوار اور موجودہ گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
سیاسی ماہرین اس جیت کو کراچی میں پیپلز پارٹی کی بڑی کامیابی قرار دیتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ ضلع شرقی کا علاقہ محمودآباد ہے جو اس حلقے میں سب سے زیادہ ووٹ رکھنے والا علاقہ ہے اور یہ ایم کیو ایم کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔
بانی ایم کیو ایم سے علیحدگی کے بعد متحدہ قومی موومنٹ کے امیدوار کو مختلف حلقوں کی حمایت کے باوجود بدترین ناکامی ہوئی جو اُن کے لیے کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہ تھی۔
سینیئر صحافی رفعت سعید جولائی کے گرم موسم میں ہونے والے اس ضمنی انتخاب کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ کراچی کی گرمی میں سیاسی درجہ حرارت بھی عروج تھا، عرفان اللہ مروت سمیت علاقے کی کئی بااثر شخصیات پیپلز پارٹی کے خلاف تھیں۔ 
’پیپلز پارٹی کے امیدوار سعید غنی اس نشست پر الیکشن لڑ رہے تھے اور سارا دن پی پی پی کے ووٹ بینک والے علاقوں میں بدامنی کی وجہ سے مسلسل میڈیا کے نمائندوں کو لمحہ بہ لمحہ صورت حال سے آگاہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔‘
ان کے مطابق شام چار بجے سعید غنی کی میڈیا ٹاک سے ایسا اندازہ ہو رہا تھا جیسے وہ بُری طرح ہار رہے ہوں، تاہم پولنگ کے آخری ایک گھنٹے میں پیپلز پارٹی نے پورا زور لگاتے ہوئے اپنے ووٹرز کو پولنگ سٹیشنز تک پہنچایا۔‘
’پیپلز پارٹی نے ووٹوں کی گنتی پر بھی کوئی سمجھوتہ نہیں ہونے دیا، اور مشکل ترین حالات میں بھی جمی رہی، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پی پی پی یہ سیٹ جیتنے میں کامیاب ہوگئی۔‘

پیپلز پارٹی اب عزیز آباد، لیاقت آباد، ناظم آباد، سرجانی ٹاؤن، ڈیفنس، کورنگی اور لانڈھی میں مضبوط امیدواروں کے ساتھ موجود ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

رفعت سعید کا مزید کہنا ہے کہ ’1988 سے 2013 تک پاکستان پیپلز پارٹی اس حلقے سے کبھی کامیاب نہیں ہوئی تھی، یہ نشست تین بار ایم کیوایم اور تین بار عرفان اللہ مروت کے پاس رہی تھی۔‘
’ملیر کے بعد کراچی شہر کے اندر سے اس نشست نے پاکستان پیپلز پارٹی کو حوصلہ دلایا کہ وہ مہاجر آبادیوں سے بھی الیکشن میں کامیابی حاصل کرسکتی ہے۔‘
سندھ میں ایک دہائی سے زائد عرصے سے حکمرانی کرنے والی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اب سندھ کے شہری علاقوں کی سب سے بڑی نمائندہ جماعت بن کر اُبھر رہی ہے۔ 
سندھ میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں سندھ کے شہری علاقوں سے کامیاب ہونے والی پی پی پی کی نظریں اب 2024 کے عام انتخابات میں بھی صوبے کے شہری علاقوں پر ہیں۔
واضح رہے کہ سندھ کے بلدیاتی انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی سندھ کے سب سے بڑے شہر کراچی، حیدرآباد اور سکھر سمیت کئی شہری علاقوں سے اپنے میئر اور ڈپٹی میئر بنانے میں کامیاب رہی ہے۔ 
اس سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی ہمیشہ کراچی شہر کے مضافاتی علاقوں اور سندھ کے دیہی علاقوں سے کامیاب ہوتی رہی ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم (پاکستان) میں پیدا ہونے والے اختلافات کا بھی بھرپور فائدہ اٹھایا ہے (فائل فوٹو: پی پی پی ایکس اکاؤنٹ)

اس سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی ہمیشہ کراچی شہر کے مضافاتی علاقوں اور سندھ کے دیہی علاقوں سے کامیاب ہوتی رہی ہے۔
سندھ میں بلدیاتی انتخابات میں بڑی کامیابی سمیٹنے والی جماعت پی پی پی نے کراچی سمیت سندھ کے شہری علاقوں میں ایم کیو ایم پاکستان کے تقسیم ہونے سے پیدا ہونے والے خلا کا بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔
اس عرصے میں پیپلز پارٹی کراچی شہر کے مضافاتی علاقوں سے آگے بڑھتے ہوئے شہر میں مہاجر آبادیوں تک اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔
پیپلز پارٹی جو کبھی کراچی کے علاقے لیاری، مواچھ گوٹھ، کیماڑی، گڈاپ یا ابراھیم حیدری کے مضافاتی علاقوں تک محدود ہوتی تھی اب کراچی کے دیگر علاقوں میں بھی اپنا اثرورسوخ بڑھا رہی ہے۔
پیپلز پارٹی اب عزیز آباد، لیاقت آباد، ناظم آباد، نارتھ ناظم آباد، سرجانی ٹاؤن، ڈیفنس، محمود آباد، کورنگی، لانڈھی، شاہ فیصل کالونی، ملیر سٹی سمیت دیگر علاقوں میں اپنے مضبوط امیدواروں کے ساتھ میدان میں موجود ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم (پاکستان) میں پیدا ہونے والے اختلافات کا بھی بھرپور فائدہ اٹھایا ہے اور اس کے ایک درجن سے زائد سابق ارکان اسمبلی کو پی پی میں شامل ہونے پر آمادہ کرلیا ہے۔ 
ان رہنماؤں میں بیشتر اب اپنے ماضی کے ساتھیوں کے خلاف الیکشن لڑ رہے ہیں۔ سیاسی ماہرین کے مطابق یہ پاکستان پیپلز پارٹی کی بڑی کامیابی ہے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق ’پیپلز پارٹی کراچی شہر میں دوسری بڑی سیاسی قُوت بن کر اُبھر سکتی ہے‘ (فائل فوٹو: گیٹی امیجز)

سینیئر صحافی عبدالجبار ناصر کا دعویٰ ہے پاکستان پیپلز پارٹی کراچی شہر میں دوسری بڑی سیاسی قُوت بن کر اُبھر سکتی ہے۔ 2024 کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کی سندھ کے شہری علاقوں میں پوزیشن ماضی کے مقابلے میں بہتر نظر آرہی ہے۔ 
ایم کیوایم پاکستان کے منحرف اراکین کے پی پی پی میں شامل ہونے سے پیپلز پارٹی کو فائدہ ہو رہا ہے، پیپلز پارٹی اب باآسانی ان مہاجر علاقوں میں انتخابی مہم چلا رہی ہے جہاں وہ ماضی میں جانے سے کتراتی تھی۔  
پاکستان پیپلز پارٹی کراچی کے صدر سعید غنی نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ان کی پارٹی کی پوزیشن شہر میں مستحکم ہے۔‘
’شہر میں لوگوں کو بہت عرصے بعد اپنی مرضی کے لیڈرز چُننے کا موقعہ مل رہا ہے جو خوش آئند ہے۔ پیپلز پارٹی جمہوریت پر یقین رکھتی ہے جو بھی پارٹی عوام کے لیے کام کرے گی ووٹر اُسے ہی ووٹ دے گا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’پیپلز پارٹی سے خوف میں مبتلا تمام سیاسی جماعتیں اب اتحاد کرکے ہمیں ہرانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ماضی میں اس شہر کا مینڈیٹ چھینا جاتا رہا ہے، تاہم اب حالات مختلف ہیں۔‘
’لوگ بے خوف گھروں سے نکل کر اپنی مرضی کی پارٹی کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کے نتائج ثابت کرتے ہیں کہ کراچی اور حیدرآباد سمیت سندھ کے دیگر شہری علاقوں کے عوام ہمارے ساتھ ہیں اور ہم پر اعتماد کرتے ہیں۔‘
 انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’2024 کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی سرپرائز دے گی اور سندھ میں پہلے سے زیادہ نشستیں حاصل کرے گی۔‘  

شیئر: