Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’عمران خان ماسک‘ آؤٹ آف سٹاک، ’کم وقت میں آرڈرز پورے کرنا مشکل ہے‘

لاہور کی شاہ عالم مارکیٹ میں ماسک کی قیمت 500 تک بتائی گئی۔ فوٹو: سکرین
پاکستان تحریک انصاف کے بانی رہنما عمران خان کو خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں دس سال اور احتساب عدالت نے توشہ خانہ کیس میں 14 برس قید کی سزا سنائی۔ وہ گزشتہ کئی ماہ سے جیل میں ہیں لیکن اُن کے چہرے سے مشابہت رکھنے والے ماسک پہنے نوجوان سڑکوں ہر نکل آئے ہیں۔
آن لائن شاپنگ سٹور دراز پر ’عمران خان ماسک‘ آتے ہی فروخت ہو گئے۔ دراز پر یہ مخصوص ماسک اب ’آؤٹ آف سٹاک‘ ہو گیا ہے۔
متعدد فیکٹری مالکان اور دکاندار یہ ماسک بنانا اور بیچنا چاہتے ہیں۔
پی ٹی آئی اور عمران خان کے چاہنے والے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ وہ سیاسی طور پر عمران خان سے جڑے رہیں۔ اس سیاسی لگاؤ کا اظہار پی ٹی آئی سپورٹرز مختلف طریقوں سے کر رہے ہیں جن میں ایک طریقہ ’عمران خان ماسک‘ بھی ہے۔
یہ ماسک دراصل پلاسٹک سے بنایا گیا ہے جو آن لائن دستیاب ہے جبکہ لاہور کے شاہ عالم مارکیٹ میں بھی کئی دکانوں پر یہ فروخت ہو رہا ہے. اس ماسک کے خدوخال کچھ ایسے انداز میں بنائے گئے ہیں کہ اسے پہننے والا دور سے عمران خان کی طرح معلوم ہوتا ہے۔ چہرے کی جھریوں سے لے کر آنکھوں کے ابھار اور حلقوں تک ہر پہلو کو فنکاری سے تراشا گیا ہے. لاہور کے شاہ عالم مارکیٹ میں دو طرح کے ماسک دستیاب ہیں. مارکیٹ کے ایک دکاندار نے معذرت خواہانہ لہجے میں نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر اُردو نیوز کو بتایا کہ ان کے پاس دو قسم کے 'عمران خان ماسک' دستیاب ہیں۔ 'ایک ماسک صرف چہرے پر پورا آتا ہے جبکہ دوسرے ماسک کے ساتھ عمران خان کی طرح بال بھی آتے ہیں۔ بالوں والا ماسک پہننے والا ہو بہ ہو عمران خان لگتا ہے۔‘
دکاندار کے مطابق انہوں نے یہ ماسک مقامی سطح پر ایک فیکٹری سے منگوائے ہیں لیکن مانگ زیادہ ہونے کی وجہ سے اب ان کے لیے مشکل ہو رہی ہے۔
آن لائن سٹورز پر اس ماسک کی قیمت مختلف بتائی گئی ہے۔ دراز پر اس کی قیمت پہلے 400 کے قریب تھی تاہم بعد میں اسے بڑھا کر پانچ سو کر دیا گیا۔ جب مانگ میں مزید اضافہ ہوا تو اس کی قیمت 1800 تک بڑھا دی گئی۔ اس وقت یہ ماسک دراز پر دستیاب نہیں ہے جبکہ شاہ عالم مارکیٹ میں کل تک اس کی قیمت 500 تک بتائی گئی۔

آن لائن سٹور کے ایک مالک کے مطابق انہوں نے صرف آزمائش کے لیے سٹور بنایا جس پر دیکھتے ہی دیکھتے لا تعداد آرڈرز آنا شروع ہوئے۔ سٹور کے مالک مجتبیٰ علی کے مطابق 'میں نے عمران خان ماسک کے لیے کئی سٹورز بنائے تھے لیکن ابھی تک ایک بھی ماسک فروخت نہیں کیا کیونکہ میں نے آؤٹ سورسنگ نہیں کی تھی بلکہ میں صرف آزمائش کرنا چاہتا تھا۔‘ 
ان کے مطابق ایک ہی دن میں ان کے کئی سٹورز پر اتنے آرڈرز آئے کہ انہیں سٹورز بند کرنا پڑے۔
عمران چوہدری اپنی فیکٹری میں پلاسٹک سے مختلف اشیا بناتے ہیں۔ انہوں نے عمران خان کے ماسک بنانے کا منصوبہ بنایا تھا۔
اس حوالے سے انہوں نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ پر کمینٹ کرتے ہوئے لکھا کہ اگر کسی کو ماسک درکار ہو تو اُن سے رابطہ کر لیں۔
اُردو نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے عمران چوہدری نے بتایا کہ انہوں نے پہلے سوچا تو تھا لیکن پھر ارادہ ترک کر دیا۔
ان کے بقول 'بہت زیادہ ڈیمانڈ کی وجہ سے میں نے سوچا میری تو ویسے بھی پلاسٹک کی فیکٹری ہے تو کیوں نہ میں بھی یہ ماسک بنا کر بیچنا شروع کردوں لیکن پھر جب لوگوں کا رسپانس دیکھا تو مجھے مجبوراً اپنا فیصلہ تبدیل کرنا پڑا کیونکہ اس کی ڈیمانڈ اس وقت الیکشن تک ہی ہے اور لوگوں کو یہ فوری بنیادوں پر چاہییں جو میں نہیں کر سکتا کیونکہ اس کی ڈائی تیار کرنے میں وقت لگتا ہے۔ ویسے تو اگر عمران خان کے بال بھی بنا دیے جائیں تو ہم بہت کچھ کما سکتے ہیں۔‘
عمران خان کے اس ماسک کو احتجاج کا ایک ذریعہ بھی سمجھا جا رہا ہے۔
پی ٹی آئی کے خلاف کریک ڈاؤن کی وجہ سے پارٹی کے سپورٹز ریلیاں نہیں نکال سکتے تاہم عمران خان کے چاہنے والے احترام اللہ سمجھتے ہیں کہ یہ ماسک ایک خاموش احتجاج ہے. انہوں نے اردو نیوز کو بتایا ' یہ ماسک خاموش مزاحمت اور احتجاج کی ایک علامت ہے. اس میں کوئی بد امنی نہیں پھیل رہی اور نہ ہی کسی قانون کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ اب اگر اِس پر بھی پابندی لگا دی گئی تو سمجھیں کہ انہیں عمران خان کے مصنوعی نقش و نگار سے بھی خوف آتا ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ پی ٹی آئی کے سپورٹرز اس ماسک سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔
ان کے بقول ’اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمیں ایسا لگتا ہے کہ جیسے عمران خان خود ہمارے ساتھ کھڑے ہیں اور ہمیں حوصلہ دے رہے ہیں۔‘

شیئر: