Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان میں دھماکے، امیدواروں کو ’انتخابی مہم محدود کرنے کی ہدایت‘

گوہر اعجاز کا کوئٹہ میں کہنا تھا کہ ’وفاقی حکومت بلوچستان میں الیکشن کے لیے تمام دستیاب وسائل مہیا کرے گی‘ (فوٹو: پی آئی ڈی کوئٹہ)
بلوچستان میں عام انتخابات قریب آتے ہی پُرتشدد واقعات میں بھی تیزی آگئی ہے۔ عسکریت پسندوں کی جانب سے انتخابی مہم مسلسل نشانے پر ہے۔ 
نامعلوم افراد کی جانب سے خوف و ہراس پھیلانے کے لیے زیادہ تر دستی بموں اور کریکر بموں کے دھماکے کیے جا رہے ہیں۔
حکام کے مطابق ’جمعرات کو کوئٹہ، جعفرآباد، پنجگور، تربت، مستونگ، حب، خضدار، خاران اور بارکھان میں کم سے کم 15 بم دھماکے ہوئے جبکہ مزید دو بم حملوں کی کوشش ناکام بنادی گئی۔‘
15 میں سے چار حملوں میں انتخابی دفاتر اور مجوزہ پولنگ سٹیشنز کو نشانہ بنایا گیا۔باقی دھماکے ڈپٹی کمشنر، پولیس سٹیشن، سکیورٹی فورسز کے کیمپ سمیت سرکاری دفاتر کو ہدف بنانے اور خوف و ہراس پھیلانے کے لیے خالی میدان میں کیے گئے۔
ان دھماکوں میں مجموعی طور پر ایک شخص ہلاک اور کم سے کم چھ زخمی ہوگئے۔
کوئٹہ میں جمعرات کو تین بم دھماکے ہوئے۔پہلا بم دھماکہ نیو سبزل روڈ پر پولیس کی ایک خالی چوکی کے قریب ہوا۔
ایس ایس پی آپریشنز کوئٹہ جواد طارق کا کہنا ہے کہ ’دھماکے میں ہلاک ہونے والے شخص کی شناخت عبدالخالق کے نام سے ہوئی ہے جو دھماکے کے وقت وہاں سے گزر رہے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’دھماکے کے لیے 8 سے 10 کلوگرام تک کا بارودی مواد استعمال کیا گیا۔‘
چند گھنٹوں کے وقفے سے دو بم دھماکے کوئٹہ کے قمبرانی روڈ پر کشمیرآباد اور سرتاج پمپ کے قریب ہوئے جن میں سے ایک ن لیگ کے انتخابی دفتر کے قریب ہوا۔ دونوں دھماکوں میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
اس سے قبل بلوچستان کے ضلع جعفرآباد کے علاقے ڈیرہ اللہ یار میں نیشنل ہائی وے پر موجود مسلم لیگ ن کی پی بی 16 سے امیدوار راحت فائق کے انتخابی کیمپ کے قریب کریکر بم کا دھماکہ ہوا۔ 
دھماکے کے نتیجے میں تین افراد زخمی ہوئے۔پولیس کا کہنا ہے کہ زخمی ہونے والوں کو ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔
پنجگور میں ڈپٹی کمشنر کے دفتر پر دو دستی بم پھینکے گئے جس سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

بلوچستان میں جمعرات کو ہونے والے دھماکوں میں ایک شخص ہلاک جبکہ کم سے کم چھ زخمی ہوگئے (فوٹو: کوئٹہ پولیس)

جمعرات کی شام پنجگور کے علاقے گرمکان میں جاوید چوک کے قریب سکیورٹی فورسز نے ایک ہوٹل میں نصب چار سے پانچ کلوگرام دیسی ساختہ بم برآمد کرکے ناکارہ بنا دیا۔ یہ ہوٹل کافی عرصے سے بند تھا۔
پنجگور سے متصل کیچ کے علاقے تُربت میں سکیورٹی فورسز پر چار حملے ہوئے جبکہ ایک کو ناکام بنا دیا گیا۔
پولیس کے مطابق تُربت کے آبسر روڈ پر چند گھنٹوں کے وقفے سے دو دستی بم دھماکے ہوئے جن میں ایف سی کے چوکیوں کو نشانہ بنایا گیا اور ایک شخص زخمی ہوا۔
ایک اور واقعہ تُربت میں پیش آیا جہاں ایف سی 106 وِنگ کی گھنہ چیک پوسٹ پر نامعلوم افراد نے مغربی جانب سے گرینیڈ لانچر سے دو دستی بم پھینکے جو دھماکوں سے پھٹ گئے اور اس کے بعد فائرنگ کی اور فرار ہوگئے، تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
کیچ ہی کے ایک اور علاقے تحصیل مند میں ایف سی 165 ونگ نے سڑک کنارے نصب ایک دیسی ساختہ بم ناکارہ بنا کر حملے کی کوشش ناکام بنادی۔ 
اس کے علاوہ 132 ونگ کی چیک پوسٹ پر ایک راکٹ داغا گیا، تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
اس کے علاوہ کراچی سے متصل بلوچستان کے صنعتی شہر حب میں سٹی تھانے پر دستی بم پھینکا گیا جس کے دھماکے میں ایک شہری زخمی ہوا۔

’جمعرات کو کوئٹہ، جعفرآباد، پنجگور، تربت، مستونگ، حب، خضدار، خاران اور بارکھان میں 15 بم دھماکے ہوئے‘ (فوٹو: کوئٹہ پولیس)

حب ہی میں ایک اور واقعے میں نامعلوم افراد نے کوسٹ گارڈز کیمپ کے گیٹ کے پاس دستی بم حملے کی کوشش کی۔ ملزمان دستی بم پھینک کر فرار ہوگئے، تاہم بم پھٹ نہ سکا۔
کوئٹہ سے متصل مستونگ میں ڈسٹرکٹ جیل پر دستی بم حملے میں ایک سپاہی زخمی ہوا۔
ادھر خضدار کے علاقے زہری بازار میں این اے 256 کے امیدوار بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل اور جے یو آئی کے پی بی 18 سے امیدوار غلام سرور موسیانی کے مشترکہ انتخابی دفتر پر نامعلوم افراد نے دستی بم سے حملہ کیا، تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
خاران شہر میں بھی دھماکے کی آواز سنی گئی لیکن جگہ کا تعین نہیں ہوسکا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ نامعلوم مسلح افراد شہر میں خوف و ہراس پھیلانے کے لیے کریکر دھماکے کرتے ہیں۔
گذشتہ 48 گھنٹوں کے دوران 24 اور تین دنوں کے دوران بلوچستان میں 25 بم حملے ہوچکے ہیں جن میں مجموعی طور پر پانچ افراد ہلاک جبکہ 20 کے قریب زخمی ہوئے ہیں۔
حکام نے بلوچستان میں امن و امان کی صورت حال کے پیشِ نظر امیدواروں کو انتخابی مہم محدود کرنے کی ہدایت کی ہے۔
 ضلع ڈیرہ بگٹی، زیارت، سبی، لورالائی، دکی اور حب سمیت کئی دیگر اضلاع میں ڈپٹی کمشنرز نے امیدواروں کو سکیورٹی خدشات کے پیش نظر انتخابی مہم اور اجتماعات محدود کرنے اور جلسے جلوس کے بجائے کارنرز میٹنگز کو ترجیح دینے کی ہدایت کی ہے۔

پنجگور میں سکیورٹی فورسز نے ایک ہوٹل میں نصب دیسی ساختہ بم برآمد کرکے ناکارہ بنا دیا (فوٹو: بلوچستان پولیس)

نگراں وفاقی وزیر داخلہ گوہر اعجاز نے وفاقی سیکریٹری داخلہ اور نیشنل ایکشن پلان کے کوآرڈینیٹر کے ہمراہ بلوچستان میں انتخابات کی تیاریوں اور امن وامان کی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے جمعرات کو کوئٹہ کا دورہ کیا اور اعلٰی سطح کے اجلاس کی صدارت کی۔
چیف سیکریٹری بلوچستان شکیل قادر خان نے انتخابات کی تیاریوں اور امن وامان کی صورت حال پر بریفنگ دی اور بتایا کہ صوبے میں 5 ہزار سے زائد پولنگ سٹیشنز پر 65 ہزار اہلکار تعینات ہوں گے۔ انتہائی حساس پولنگ سٹیشن پر 8 جبکہ حساس پر 6 اہلکار تعینات کیے جائیں گے۔
نگراں وفاقی وزیر داخلہ نے اس موقع پر ہدایت کی کہ ’امن وامان کو یقینی بنانے کے لیے تمام اداروں کے مابین رابطوں کو مربوط کیا جائے۔ انہوں نے عام انتخابات کے لیے جامع اور مکمل سکیورٹی پلان تیار کرنے کی ہدایت کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’عوام کی جان ومال کی حفاظت ہماری اولین ترجیح ہے۔ کوشش ہے کہ ملک میں عام انتخابات پُرامن ماحول میں منعقد ہوں۔‘
’وفاقی حکومت بلوچستان میں الیکشن کے لیے تمام دستیاب وسائل مہیا کرے گی، انتخابات کے دوران صوبے میں ووٹروں اور امیدواروں کو بھرپور تحفظ حاصل رہے گا۔‘

شیئر: