صوبے میں امن و امان کی صورتحال کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی سرگرمیاں ہو رہی ہیں اور بلاول بھٹو بھی جلسے کر چکے ہیں۔
جان محمد اچکزئی کے مطابق سکیورٹی کے معاملے پر امیدواروں کو بھی آن بورڈ لیا جا رہا ہے۔
سخت سردی اور امن و امان کی صورت حال کے باعث ٹرن ڈاؤن میں کمی کے خدشے کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ عوام الیکشن کے روز ضرور نکلیں اور اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔
خیال رہے کہ انتخابی مہم کے دوران امن و امان کی سب سے زیادہ خراب صورت حال بلوچستان میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔
حکام کی جانب سے جمعرات کو بتایا گیا تھا کہ انتخابی سرگرمیوں کو نشانہ بنانے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، اس لیے ’امیدواروں کو انتخابی مہم محدود کرنے‘ کی ہدایت کی جاتی ہے۔
حکام کے مطابق جمعرات کو کوئٹہ، جعفرآباد، پنجگور، تربت، مستونگ، حب، خضدار، خاران اور بارکھان میں کم سے کم 15 بم دھماکے ہوئے جبکہ مزید دو بم حملوں کی کوشش ناکام بنائی گئی۔
بیان کے مطابق 15 میں سے چار انتخابی دفاتر اور مجوزہ پولنگ سٹیشنز کو نشانہ بنایا گیا۔
باقی دھماکے ڈپٹی کمشنر، پولیس سٹیشن، سکیورٹی فورسز کے کیمپ سمیت سرکاری دفاتر کو ہدف بنانے اور خوف و ہراس پھیلانے کے لیے خالی میدان میں کیے گئے۔
ان دھماکوں میں مجموعی طور پر ایک شخص ہلاک اور کم سے کم چھ زخمی ہوگئے۔ کوئٹہ میں جمعرات کو تین بم دھماکے ہوئے۔ پہلا بم دھماکہ نیو سبزل روڈ پر پولیس کی ایک خالی چوکی کے قریب ہوا۔ ایس ایس پی آپریشنز کوئٹہ جواد طارق کا کہنا ہے کہ ’دھماکے میں ہلاک ہونے والے شخص کی شناخت عبدالخالق کے نام سے ہوئی ہے جو دھماکے کے وقت وہاں سے گزر رہے تھے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’دھماکے کے لیے 8 سے 10 کلوگرام تک کا بارودی مواد استعمال کیا گیا۔‘ چند گھنٹوں کے وقفے سے دو بم دھماکے کوئٹہ کے قمبرانی روڈ پر کشمیرآباد اور سرتاج پمپ کے قریب ہوئے جن میں سے ایک ن لیگ کے انتخابی دفتر کے قریب ہوا۔ دونوں دھماکوں میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
ضلع ڈیرہ بگٹی، زیارت، سبی، لورالائی، دکی اور حب سمیت کئی دیگر اضلاع میں ڈپٹی کمشنرز نے امیدواروں کو سکیورٹی خدشات کے پیش نظر انتخابی مہم اور اجتماعات محدود کرنے اور جلسے جلوس کے بجائے کارنرز میٹنگز کو ترجیح دینے کی ہدایت کی ہے۔