Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان میں 8 سابق وزرائے اعلٰی کی دوبارہ عہدہ سنبھالنے کی دوڑ

نواب اسلم رئیسانی چیف آف سراوان ہیں جو بلوچستان میں دوسری طاقتور قبائلی پوزیشن ہے۔ (فائل فوٹو)
آٹھ فروری کے انتخابات میں بلوچستان سے کئی نامور سیاسی اور قدآور  قبائلی شخصیات بھی حصہ لے رہی ہیں۔ ان میں آٹھ ایسے امیدوار بھی شامل ہیں جو مختلف ادوار میں وزارت اعلٰی کے منصب پر فائز رہ چکے ہیں۔
انتخابی سیاست میں ایک بار پھر اپنی قسمت آزمانے والے سابق وزرائے اعلٰی میں  نواب جام کمال خان، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، نواب ثنا اللہ زہری، نواب اسلم رئیسانی، سردار اختر مینگل، عبدالقدوس بزنجو اور میر جان محمد جمالی کے علاوہ سابق نگراں وزیراعلیٰ سردار صالح بھوتانی بھی شامل ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تمام سابق وزیراعلیٰ صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر امیدوار ہیں تاہم ان میں سے قومی اسمبلی کا انتخاب بھی لڑ رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ان سابق وزرائے اعلٰی میں سے بیشتر اپنی نشستیں حاصل کر کے ایک بار پھر وزارت اعلٰی کے لیے مضبوط امیدواروں کے طور پر سامنے آ سکتے ہیں۔
انتخابی میدان میں سرگرم سردار اختر مینگل اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اپنی سیاسی جماعتوں کے سربراہان ہیں۔ نواب اسلم رئیسانی، نواب ثنا اللہ زہری، نواب جام کمال خان، سردار صالح بھوتانی، سردار اختر مینگل اپنے قبیلوں کے سربراہان بھی ہیں اور سیاست کے ساتھ ساتھ قبائلی طور پر بھی طاقتور شخصیات سمجھی جاتی ہیں۔ یہ بڑی شخصیات دو سے سات مرتبہ تک اسمبلی کے ارکان رہ چکی ہیں۔

سردار اختر مینگل

بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل فروری 1997 سے جون 1998 تک وزارت اعلٰی بلوچستان رہ چکے ہیں۔ ان کے والد سردار عطا اللہ مینگل بھی وزارت اعلٰی رہے ہیں۔
اختر مینگل 1988 سے اب تک چار مرتبہ بلوچستان اسمبلی کے رکن اور 2018 سے 2023 تک قومی اسمبلی کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔
وہ ایک بار پھر اپنی پارٹی بی این پی کے پلیٹ فارم سے قومی اسمبلی کے تین اور صوبائی اسمبلی کی ایک نشست کا انتخاب لڑ رہے ہیں۔ اختر مینگل این اے 256 خضدار، این اے 261 سوراب کم قلات کم مستونگ، این اے 264 کوئٹہ اور خضدار میں اپنے آبائی علاقے وڈھ سے بلوچستان اسمبلی کے حلقہ پی بی 20 پر امیدوار ہیں۔
سردار اختر مینگل کا قومی اسمبلی کی نشستوں پر سابق وزارت اعلٰی پیپلز پارٹی کے  امیدوار ثنا ءاللہ زہری، ان کے بھائی سابق وفاقی وزیر آزاد امیدوار اسرار زہری، جے یو آئی کے مولانا عبدالغفور حیدری، سابق وزارت اعلٰی نواب اسلم رئیسانی کے بھتیجے پیپلز پارٹی کے  جمال رئیسانی، جے یو آئی کے عبدالرحمان رفیق اور پشتونخوا میپ کے جمال  ترکئی کے ساتھ مقابلہ ہے۔
صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی بی 20 وڈھ پر سابق نگراں وزارت اعلٰی کے بیٹے شفیق الرحمان ان کے مد مقابل ہیں۔ خضدار اور کوئٹہ کی قومی اسمبلی  اور وڈھ کی صوبائی اسمبلی کی نشست پر اختر مینگل کے جیتنے کے امکانات ہیں۔

ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نیشنل پارٹی کے سربراہ ہیں۔ (فائل فوٹو)

نواب جام کمال خان عالیانی

جام کمال خان اپنے قبیلے کے سربراہ ہیں۔ وہ اگست 2018 سے اکتوبر 2021 تک بلوچستان کے وزارت اعلٰی رہے۔ ان کے والد جام یوسف اور دادا جام غلام قادر بھی وزارت اعلٰی رہ چکے ہیں۔ ان کے خاندان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ گزشتہ دو صدیوں سے اقتدار کا حصہ  بنتا آ رہا ہے۔ قیام پاکستان سے قبل ان کے آباؤ و اجداد ریاست لسبیلہ کے حکمران رہے۔
جام کمال خان 2013 میں پہلی مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن اور پھر وفاقی وزیر بنے۔ وہ اس سے پہلے ضلع ناظم لسبیلہ رہے۔ جام کمال خان اپنے آبائی ضلع لسبیلہ سے صوبائی اسمبلی کی نشست پی بی 22 اور قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 257 حب کم لسبیلہ کم آواران سے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر انتخاب لڑ رہے ہیں۔ انہیں دونوں نشستوں پر نیشنل پارٹی کی حمایت حاصل ہے۔
قومی اسمبلی کے حلقہ پر ان کا مقابلہ سابق نگراں وزارت اعلٰی سردار صالح بھوتانی کے بھائی آزاد امیدوار سرداراسلم بھوتانی اور سابق وزارت اعلٰی عبدالقدوس بزنجو کے بھائی پیپلز پارٹی کے امیدوارعبدالوہاب بزنجو سے ہے تاہم دونوں حلقوں پر جام کمال خان کی پوزیشن مضبوط  بتائی جاتی ہے۔
جام کمال خان مسلم لیگ ن کی جانب سے وزارت اعلٰی کے سب سے مضبوط  امیدوار سمجھے جاتے ہیں۔

ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ

ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نیشنل پارٹی کے سربراہ ہیں۔ وہ اس سے پہلے 2013 سے 2015 تک اڑھائی سال وزارت اعلٰی رہے۔ وہ 1988 سے انتخابی سیاست میں سرگرم ہیں اور اب تک چار مرتبہ صوبائی اسمبلی کے رکن اور ایک بار سینیٹر رہ چکے ہیں۔
وہ اس بار بلوچستان کے مکران ڈویژن کے مرکز تربت سے بلوچستان اسمبلی کے حلقہ پی بی 26 سے امیدوار ہیں۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ  این اے 259 کیچ کم گوادر سے قومی اسمبلی کی نشست کے بھی امیدوار ہیں۔
صوبائی اسمبلی کے حلقے پر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا بی این پی کے سید احسان شاہ سے کانٹے دار  مقابلہ متوقع ہے۔ قومی اسمبلی کی نشست پر ان کا مقابلہ  بی این  پی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار یعقوب بزنجو، پیپلز پارٹی کے ملک شاہ گورگیج، بی اے پی کے کہدہ بابر اور حق دو تحریک کے حسین واڈیلہ سے ہو گا۔

سردار اختر مینگل فروری 1997 سے جون 1998 تک وزارت اعلٰی بلوچستان رہ چکے ہیں۔ (فائل فوٹو)

نواب ثنا اللہ زہری

نواب ثنا اللہ زہری، جھالاوان میں رہنے والے قبائل کے سربراہ ہیں۔ وہ 2015 سے 2018 تک ن لیگ کی جانب سے بلوچستان کے وزارت اعلٰی رہے۔ وہ بلوچستان کے سب سے سینیئر پارلیمنٹرینز میں سے ایک سمجھے جاتے ہیں جو 1988 سے اب تک سات مرتبہ بلوچستان اسمبلی کے رکن رہ چکے ہیں۔ نواب ثنا اللہ سینیٹ آف پاکستان کے رکن بھی رہے ہیں۔
نواب ثنااللہ زہری اس بار پر پی بی 18 خضدار اور این اے 261 سوراب کم قلات کم خضدار سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر امیدوار ہیں۔ پیپلز پارٹی بلوچستان سے 12  سے 15 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے تو نواب ثنا اللہ زہری  وزرات اعلٰی کے امیدوار کے طور پر سامنے آ سکتے ہیں۔
پیپلز پارٹی کی جانب سے میر سرفراز بگٹی بھی وزارت اعلٰی کے مضبوط امیدوار میں شامل ہیں جو پی بی 10 ڈیرہ بگٹی سے انتخاب لڑ رہے ہیں جہاں ان کا مقابلہ سابق گورنر بلوچستان نواب اکبر بگٹی کے پوتے نوابزادہ گہرام بگٹی سے ہے۔

نواب اسلم رئیسانی

نواب اسلم رئیسانی چیف آف سراوان ہیں جو بلوچستان میں دوسری طاقتور قبائلی پوزیشن ہے۔ وہ 2008 سے 2013 تک بلوچستان کے سب سے زیادہ مدت تک رہنے والے وزارت اعلٰی رہے۔ ان کے والد نواب غوث بخش رئیسانی بھی فعال سیاسی رہنما اور بلوچستان کے گورنر رہ چکے ہیں۔
نواب اسلم رئیسانی 1988، 1990، 2002، 2008 اور 2018  کے انتخابات میں پانچ مرتبہ بلوچستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ اس بار وہ جمعیت علمائے اسلام کے ٹکٹ پر پی بی 37 مستونگ پر انتخاب میں حصہ لے رہے  ہیں۔ ان کا مقابلہ پیپلز پارٹی کے سردار نور احمد بنگلزئی، بی این پی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوارنواب محمد خان شاہوانی اور نیشنل پارٹی کے سردار کمال خان بنگلزئی سے کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے۔
نواب اسلم رئیسانی کامیاب ہوتے ہیں تو جے یو آئی کی جانب سے وزارت اعلٰی کے مضبوط امیدواروں میں شامل ہوں گے۔

میر عبدالقدوس بزنجو

میرعبدالقدوس بزنجو دو مرتبہ 2018 میں چھ ماہ اور 2021 سے 2023 تک دو سال تک بلوچستان کے وزیراعلٰی رہے۔ دونوں مرتبہ وہ عدم اعتماد کی تحریک لا کر وزارت اعلٰی کو استعفا دینے پر مجبور کرنے کے بعد وزیراعلٰی بنے۔
عبدالقدوس بزنجو 2002 ،2013 اور 2018 میں تین مرتبہ رکن بلوچستان اسمبلی رہے۔ 2013 میں وہ آواران سے صرف 544 ووٹ لے کر پاکستان کی تاریخ میں کم ترین ووٹ لے کر ایم پی اے بنے تھے۔ ان کے والد بھی صوبائی  وزیر رہ چکے ہیں۔
عبدالقدوس بزنجو چند ماہ قبل بلوچستان عوامی پارٹی چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے اور ایک بار پھر پی بی 23 آواران سے بلوچستان اسمبلی کا انتخاب لڑ رہے ہیں۔ انہیں اس بار نیشنل پارٹی کے خیر جان بلوچ کی صورت میں مشکل حریف کا سامنا ہے۔

میرعبدالقدوس بزنجو دو مرتبہ بلوچستان کے وزیراعلٰی رہے۔ (فوٹو: سوشل میڈیا)

میر جان محمد جمالی

بلوچستان اسمبلی کے سپیکر میر جان محمد جمالی بلوچستان عوامی پارٹی کے ٹکٹ پر پی بی 17 اوستہ محمد سے بلوچستان اسمبلی کا انتخاب لڑ رہے ہیں۔ ان کا اپنے کزن پیپلز پارٹی کے امیدوار فیصل خان جمالی کے ساتھ کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے۔
جان جمالی جون 1998 میں سردار اختر مینگل کی حکومت کے خاتمے کے بعد وزیراعلٰی بنے اور12 اکتوبر 1999 کو مارشل لا لگنے تک وزیراعلٰی رہے۔ جان جمالی 1988 سے اب تک چھ مرتبہ بلوچستان اسمبلی کے رکن رہ چکے ہیں۔ وہ 2006 سے 2012 تک سینیٹ آف پاکستان کے رکن اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے عہدے پر بھی فائز رہے۔

سردار صالح بھوتانی

سات سابق وزرائے اعلٰی کے علاوہ ایک سابق نگراں وزیراعلٰی سردار صالح بھوتانی بھی انتخابی دوڑ میں شامل ہیں جو نومبر 2007 سے اپریل 2008 تک بلوچستان کے نگراں وزیراعلٰی رہے۔ سردارصالح بھوتانی اور ان کے خاندان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اپنے آبائی حلقے کی صوبائی نشست پر 1985 سے اب تک انہیں کبھی شکست نہیں ہوئی۔
وہ 1985 سے اب تک سات مرتبہ بلوچستان اسمبلی کے رکن رہ چکے ہیں۔ 2002 اور 2008 میں دو مرتبہ ان کے بھائی سردار اسلم بھوتانی بھی ایم پی اے رہے۔
سردار صالح بھوتانی اس بار بھی اپنے آبائی حلقے کراچی سے متصل بلوچستان کے صنعتی شہر حب سے صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی بی 21 پر بلوچستان عوامی پارٹی کے ٹکٹ پر انتخاب لڑ رہے ہیں۔ ان کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کے علی حسن زہری اور نیشنل پارٹی کے رجب علی رند امیدوار ہیں۔
علی حسن زہری کی انتخابی مہم کے سلسلے میں سابق صدر آصف علی زرداری  نے اتوار کو حب میں جلسہ کیا تاہم سردار صالح بھوتانی کی پوزیشن مضبوط بتائی جاتی ہے۔ اگر وہ کامیاب ہوتے ہیں تو وہ آٹھویں مرتبہ بلوچستان اسمبلی کا رکن بننے کا اعزاز حاصل کریں گے۔

شیئر: