Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حق دو تحریک: گوادر کی سیاست میں بڑی تبدیلی

گوادر کی پارلیمانی سیاست پر گذشتہ چار دہائیوں کے دوران تین خانوادے چھائے ہوئے تھے تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ صرف تین سال قبل ابھرنے والی حق دو تحریک کے میدان میں آنے کے بعد گوادر کی سیاست تبدیل ہوگئی ہے اور یہ تحریک فروری 2024 کے انتخابات میں باقی تینوں طبقوں کے لیے بڑا چیلنج بن گئی ہے۔
حق دو تحریک 8 فروری کے انتخابات میں پہلی بار حصہ  لے رہی ہے اور اس نے عوامی مقبولیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھر پور انتخابی مہم بھی چلائی ہیں جس میں خواتین اور نوجوانوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
کیا حق دو تحریک اپنی عوامی مقبولیت  کے بل بلوتے پر شہر کی سیاست پر چار دہائیوں سے چھائے ہوئے تین خاندانوں کا زور توڑ دے گی اس کا تجزیہ کرنے سے پہلے گوادر کے قومی و صوبائی اسمبلی کے حلقہ کے انتخابی سٹرکچر کی تفصیلات بتاتے ہیں۔
تین لاکھ آبادی والے اس ضلع میں بلوچستان اسمبلی کا صرف ایک حلقہ ہے جو پی بی 24 کہلاتا ہے جبکہ قومی اسمبلی کے حلقہ 259 میں اس کے ساتھ ضلع کیچ بھی شامل ہیں۔ گوادر میں ایک لاکھ 38 ہزار 952 ووٹرز ہیں جن میں مردوں کی تعداد 74 ہزار اور خواتین کی 74 ہزار ہے۔ جبکہ قومی اسمبلی کے حلقہ پر کیچ کے ووٹرز کو ملا کر کل تین لاکھ چار ہزار رائے دہندگان حق راہی دہی کا استعمال کرسکیں گے۔
حق دو تحریک نے نہ صرف گوادر کی ان دونوں نشستوں بلکہ مکران ڈویژن کے اضلاع کیچ اور پنجگور سے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی باقی سات نشستوں پر بھی امیدوار میدان میں اتارے ہیں۔
تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمان گوادر سے بلوچستان اسمبلی کی واحد نشست پی بی 24 کے علاوہ کیچ اور پنجگور سے قومی اسمبلی کی نشست این اے 258 سے امیدوار ہیں۔

مولانا ہدایت الرحمان گوادر سے بلوچستان اسمبلی کی واحد نشست پی بی 24  سے امیدوار ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

تحریک کے دوسرے اہم رہنما حسین واڈیلہ این اے 259 کیچ کم گوادر کی قومی اسمبلی کی نشست پر انتخاب لڑ رہے ہیں۔
مولانا ہدایت الرحمان کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے اور وہ اس صوبائی جنرل سیکریٹری ہیں لیکن مولانا نے جماعت اسلامی کی بجائے حق دو تحریک کو الیکشن کمیشن میں سیاسی جماعت کی حیثیت سے رجسٹرڈ کرایا ہے اور اس کے تمام امیدوار خرگوش کے انتخابی نشان پر لڑ رہے ہیں۔
ان 9 نشستوں میں سے حق دو تحریک کی سب سے زیادہ مضبوط پوزیشن گوادر کی بلوچستان اسمبلی کی نشست پر بتائی جاتی ہے جہاں حق دو تحریک کے مولانا ہدایت الرحمان کے مقابلے میں تین بار صوبائی اسمبلی کے رکن رہنے والے بلوچستا ن نیشنل پارٹی کے میر حمل کلمتی، سابق ایم پی اے حسین اشرف کے بیٹے نیشنل پارٹی کے امیدوار اشرف حسین اور میر مہیم جان جیسے مضبوط امیدوار ہیں جن کا خاندان تین بار یہ نشست جیت چکا ہے۔
حق دو تحریک نے مئی 2022 کے انتخابات میں چار جماعتی اتحاد کے مشترکہ اور مضبوط امیدواروں کو شکست دے کر کامیابی حاصل کی تھی  اور حق دو تحریک کے شریف میاں داد گوادر کی میونسپل کمیٹی کے چیئرمین منتخب ہوئے۔
کیا عام انتخابات میں بھی حق دو تحریک کامیابی حاصل کرسکے گی  اس سوال پر گوادر کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار ناصر سہرابی کا کہنا تھا کہ گوادر کی قومی اور صوبائی اسمبلی کی دونوں نشستوں پر اس بار زبردست اور دلچسپ مقابلہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات سے لے کر 2018 تک گوادر کی صوبائی اسمبلی کی نشست پر عبدالغفور کلمتی، غوث بخش بزنجو کے ساتھی قوم پرست رہنما حسین اشرف اور ذکری فرقے کے روحانی پیشوا پر مشتمل تین خاندانوں کا مقابلہ رہا ہے  لیکن اس بار اس میں حق دو تحریک بھی مقابلے میں شامل ہوگئی ہے۔
گوادر کے مقامی صحافی صداقت  بلوچ کے مطابق حسین واڈیلا نے اس سے پہلے کبھی انتخابات میں حصہ نہیں لیا جبکہ سربندن کے ایک مچھیرے خاندان سے تعلق رکھنے والے مولانا ہدایت الرحمان ایک دہائی سے زائد عرصے سے سیاست کر رہے ہیں۔
انہوں نے 2013ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر گوادر سے قومی اور صوبائی  پر انتخاب لڑا مگر نہ صرف شکست کھائی بلکہ خاطر خواہ ووٹ حاصل نہ کرسکے۔

ناصر سہرابی کے مطابق عبدالغفور کلمتی خانوادے کی نمائندگی اب ان کا بیٹا میر حمل کلمتی کرتا ہے۔ (فوٹو: ایکس)

تجزیہ کار ناصر سہرابی کہتے ہیں کہ حق دو تحریک کے ابھار کے بعد گوادر کی سیاست اب تبدیل ہوگئی ہے  اور اس کا  مستقبل طے کرنے میں 2024 کے انتخابات اہم کردار ادا کریں گے۔
1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں گوادر میں صوبائی اسمبلی کے دو حلقے تھے اس کے بعد 1988 سے لے کر 2018 تک ہونے والے 8 انتخابات میں گوادر سے بلوچستان اسمبلی کی صرف ایک نشست رہی۔
میر عبدالغفور کلمتی 1985 کے غیر جماعتی انتخابات کے علاوہ 1997 میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے ٹکٹ پر ،2008 میں ان کے بیٹے میر حمل کلمتی نے مسلم لیگ ق، 2013 اور 2018ء میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے ٹکٹ پر گوادر سے بلوچستان اسمبلی کی نشست جیتی۔
حسین اشرف بلوچ غوث بخش بزنجو کی پاکستان نیشنل پارٹی کے ٹکٹ پر 1988 میں پہلی مرتبہ اور1990 میں دوسری بار کامیاب ہوئے۔
ذکری فرقے کے روحانی پیشوا خاندان کے پاس یہ نشست تین بار رہی۔ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں داد کریم سید جب کہ سید شیر جان 1993 میں پہلی بار پاکستان پیپلز پارٹی اور 2002 میں دوسری بار آزاد حیثیت سے بلوچستان اسمبلی کے رکن  منتخب ہو کر مسلم لیگ ق میں شامل ہوکر حکومت کا حصہ بنے تھے۔
ناصر سہرابی کے مطابق عبدالغفور کلمتی خانوادے کی نمائندگی اب ان کا بیٹا میر حمل کلمتی کرتا ہے جو بلوچستان نیشنل پارٹی کا حصہ ہیں۔
حسین اشرف کی نمائندگی ان کے بیٹے نیشنل پارٹی سے وابستہ اشرف حسین کررہے ہیں جبکہ ذکری پیشوا خاندان کی جانب سے اس بار مہیم جان آزاد حیثیت سے سامنے آئے ہیں تاہم انہیں پاکستان پیپلز پارٹی کی حمایت حاصل ہے۔
گوادر شہر، پسنی، اورماڑہ سمیت ضلع کے مختلف علاقوں میں ذکری فرقے کا مؤثر ووٹ بینک ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں ذکری خاندان پس منظر میں رہ کر کسی گروپ کو سپورٹ کرتا تھا اس بار اس خاندان سے میر مہیم جان آزاد حیثیت سے خود میدان میں اترے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 2018 کے انتخابات میں حمل کلمتی کا مقابلہ یعقوب بزنجو کے ساتھ تھا جو بنیادی طور پر گوادر سے تعلق نہیں رکھتے ان کے خاندانی اور کاروباری پس منظر پر بھی تنقید کی گئی اس لیے گوادر کے لوگوں نے حمل کلمتی کو سپورٹ کیا۔
ان کا ماننا ہے کہ حمل کلمتی گوادر کے لوگوں کے اجتماعی مسائل حل کرنے یا اجاگر کرنے میں زیادہ کامیاب نہیں ہوسکے۔ مقبول ووٹ لینے کے باوجود روایتی انداز میں سیاست کرتے رہے  اس لیے حق دو تحریک کے ابھرنے کے بعد اب انہیں وہ ان کی پذیرائی اب وہ نہیں رہی۔
ناصر سہرابی کے بقول پچھلے انتخابات میں حمل کو بڑی تعداد میں گوادر شہر سے ووٹ ملے تھے لیکن اس بار ان کا یہ بیس حق دو تحریک کی وجہ سے کمزور پڑ چکا ہے۔

بلدیاتی انتخابات میں نوجوانوں اور خواتین کی بھر پور شرکت کی وجہ سے حق دو تحریک کو کامیابی ملی۔ (فوٹو: ایکس)

ناصر سہرابی کے بقول عوامی مقبولیت میں حق دو تحریک اور ہدایت الرحمان کو برتری حاصل ہے خصوصاً گوادر شہر میں تحریک ابھرنے سے لے کر اب تک تین سالوں کے دوران ان کی پذیرائی برقرار ہے اور انہیں انتخابات میں اچھے خاصے ووٹ ملنے کے امکانات ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس عوامی مقبولیت کے پیچھے مولانا ہدایت الرحمان اور ان کی تحریک کی دو تین سال کی محنت ہے۔ وہ سخت حالات برداشت کیے، عوامی مسائل پر سکیورٹی چیک پوسٹوں اور فورسز کے رویے  ماہی گیر، ٹرالرز اور بارڈر ٹریڈ پر جس طرح عوامی رجحانات کی ترجمانی کی۔
انہوں نے بتایا کہ حق دو تحریک کو ماضی میں بی ایس او، پروگریسیو یوتھ موومنٹ، بی این ایم جیسی تحریکوں سے وابستہ حلقوں کی بھی حمایت حاصل ہے جو حق دو تحریک سے پہلے قوم پرست نعروں کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کو چیلنج کرنے اورعوامی مسائل کو احتجاج کے ذریعے دباؤ ڈال کر حل کرانے کی کوشش کرتے رہے۔
ان کے مطابق حق دو تحریک کو گوادر شہر کے ساتھ ساتھ پسنی، سربندن  جیسے علاقوں میں  زیادہ پذیرائی  حاصل ہے تاہم تحصیل جیونی اور اورماڑہ میں ان کی پوزیشن اتنی مضبوط ہے۔
جبکہ حمل کلمتی کو پچھلے انتخابات میں سب ڈویژن پسنی میں ذکری فرقے کے ووٹ زیادہ پڑے تھے لیکن اس بار یہ ووٹ بھی تقسیم ہیں اور یہ کمیونٹی اپنے روحانی پیشوا مہیم جان کو پڑ رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ نیشنل پارٹی کے اشرف حسین کی پسنی میں پوزیشن اچھی ہے۔ گوادر شہر میں وہ اپنی انتخابی طاقت بہتربنانے کی کوشش کررہے ہیں۔
جیونی میں ان کی اچھی تعداد سپورٹرکی موجود ہیں ۔ اورماڑہ میں وہ کوشش کررہے ہیں کہ ذکری کمیونٹی کے ووٹ حاصل کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ مہیم جان نے پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد کیا ہوا ہے ان کے پاس اپنی کمیونٹی اور عقیدت مندوں کا ووٹ بینک موجود ہے ۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے کچھ سپورٹ مل سکتی ہے ۔
گوادر کے مقامی صحافی صداقت بلوچ نے بتایا کہ انتخابی مہم کے دوران گوادر میں حق دو تحریک، نیشنل پارٹی اور بی این پی نے جلسے کئے مگر حق دو تحریک کے جلسے اپنے حجم میں باقیوں سے کئی گنا بڑے تھے جس سے ان کی مقبولیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بلدیاتی انتخابات میں نوجوانوں اور خواتین کی بھر پور شرکت کی وجہ سے حق دو تحریک کو کامیابی ملی۔
اس بار بھی حق دو تحریک کی پوری توجہ اور انحصار خواتین اور نوجوانوں پر ہیں۔ گوادر میں اس نے خواتین کا جلسہ بھی کیا جس میں خواتین کی شرکت قابل ذکر رہی۔
ناصر سہرابی کے مطابق انتخابی مہم میں حق دو تحریک کا زیادہ زور عوامی اجتماعات پر رہا انہوں نے بڑے جلسے اور کارنرز میٹنگ کی۔ انہوں نے بڑے خوبصورت ترانے بھی بنے بنائے ہوئے تھے اس مہم میں نوجوانوں کی بڑی تعداد ان کے ساتھ رہی جو گھر گھر مہم کے ذریعے زیادہ سے زیادہ لوگوں کوووٹ دینے کے لیے باہر نکلنے کے لیے ابھار تے رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حق دو تحریک کی انتخابی مہم چلانے والے الزام لگاتے تھے کہ مخالفین پیسہ خرچ کررہے ہیں وہ اپنے حمایتوں کو یہ کہتے رہے کہ اگر پیسے یا کسی اور چیز کی پیشکش ہو تو لینے سے دریغ نہ کریں مگر ووٹ انہیں نہ دیں۔
انہوں نے بتایا کہ میر حمل کلمتی نے اپنی مہم پر کافی زیادہ اخراجات کئے ہیں جھنڈوں کی بہار رہی وال چاکنگ  بڑے پیمانے پر کی گئی ۔ کارنرز میٹنگ اوراجتماعات میں وہ بھی پیچھے نہیں رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان دو فریقین کے ورکرز میں جو گرم جوشی پائی گئی وہ گوادر شہر میں نیشنل پارٹی کی مہم میں نظر نہیں آئی۔ اس کے علاوہ مہیم خان اپنے مخصوص انداز اپنے نمائندے بھیج کر کہیں خود جاکر اپنے عقید مند وں کے حلقے کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے رہے۔
صداقت بلوچ کے مطابق گوادر کے علاوہ ضلع کے دیگرشہروں میں  اورماڑہ، پسنی اور جیونی  شامل ہیں مگر آبادی زیادہ ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ 45 ہزار ووٹ گوادر شہر میں رجسٹرڈ ہیں۔ مولانا ہدایت الرحمان زیادہ انحصار گوادر کے ووٹرز پر کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں ماہ رنگ بلوچ کی قیادت لاپتہ افراد کے لواحقین  کی احتجاجی تحریک ابھرنے کے بعد صورتحال تبدیل ہوئی  ہے یہ طبقہ پارلیمانی سیاست کا مخالف ہے اور لوگوں کو ووٹ نہ ڈالنے پر راغب کررہے ہیں اس کے نتیجے میں ٹرن آؤٹ پر اثرات پڑینگے۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹرن آؤٹ کی کمی کا سب سے زیادہ نقصان حق دو تحریک اور پھر حمل کلمتی کو ہوگا۔

حق دو تحریک کب بنی

حق دو تحریک 2021ء میں سیکورٹی چیک پوسٹوں  ،بلوچستان کے ساحلوں میں بڑی کشتیوں کی غیر قانونی شکار، ماہی گیروں کی سمندر میں نقل و حرکت اور سرحدی تجارت پر پابندیوں سے متعلق مقامی آبادی کے تحفظات اور مطالبات کو حل کرنے کے لیے ابھری تھی اور خواتین کی قابل ذکر شمولیت کے ساتھ بڑی احتجاجی ریلیوں،2021 میں 32 روز اور 2022 میں مسلسل 56 روز تک دیے گئے دھرنوں سے پذیرائی حاصل کی۔
اس احتجاج کی قیادت مولانا ہدایت الرحمان اور حسین واڈیلہ نے کی۔ دسمبر میں دھرنے کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے طاقت کا استعمال کیا اس دوران پرتشدد واقعات بھی ہوئے۔
پولیس اہلکار کی ہلاکت کے الزام میں حق دو تحریک کے کئی کارکنان گرفتار کئے گئے۔ مولانا ہدایت الرحمان بھی جنوری 2023 سے مئی 2023 تک چار ماہ تک جیل میں رہے۔

شیئر: