ٹرن آؤٹ 50 فیصد سے زیادہ اور فیصلہ کُن ثابت ہو گا: ڈاکٹر طاہر ملک
ٹرن آؤٹ 50 فیصد سے زیادہ اور فیصلہ کُن ثابت ہو گا: ڈاکٹر طاہر ملک
بدھ 7 فروری 2024 16:18
پروفیسر طاہر نعیم ملک کا کہنا تھا کہ ’اس بار آزاد امیدواروں کا کردار ماضی کے آزاد امیدواروں سے مختلف ہے۔‘ (فوٹو: ایکس، پروفسیر طاہر نعیم ملک)
عام انتخابات میں اب چند گھنٹے ہی باقی رہ گئے ہیں اور شہری اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے لیے پرجوش ہیں جبکہ بہت سے سوالات سردست تشنہ جواب بھی ہیں۔
اس حوالے سے معروف دانشور اور ماہر پروفیسر ڈاکٹر طاہر نعیم ملک نے اردو نیوز سے خصوصی گفتگو میں امید کا اظہار کیا کہ ٹرن آئوٹ 50 فی صد سے زیادہ اور فیصلہ کن ثابت ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ 'گزشتہ چند دنوں میں ایک سیاسی رہنما کے بارے میں آنے والے فیصلوں کے باعث عوام میں یہ احساس پیدا ہوا ہے کہ ان کے ووٹ کی کوئی وقعت نہیں، تاہم اس کے ساتھ ہی یہ احساس بھی پیدا ہوا ہے کہ وہ ووٹ کے ذریعے موجودہ نظام کے خلاف مزاحمت کر سکتے ہیں تو خاموش اکثریت اگر ووٹ کے ذریعے اپنی رائے کا اظہار کرتی ہے تو اس سے ٹرن آئوٹ زیادہ ہو گا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ 'نوجوانوں کے علاوہ شہری علاقوں میں ہونے والی موبلائزیشن کے باعث بھی مناسب ٹرن آؤٹ کی امید ہے۔‘
پروفیسر ڈاکٹر طاہر ملک کے مطابق ’ایک سیاسی جماعت کو اگرچہ انتخابی مہم چلانے کی اجازت نہیں دی جا رہی مگر اس کے ووٹرز پر حق رائے دہی استعمال کرنے پر کوئی پابندی نہیں۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا یہ پارٹی ووٹرز کو پولنگ سٹیشنز پر لانے میں کامیاب ہو گی یا نہیں؟‘
انہوں نے کہا کہ 'موجودہ انتخابات میں ٹیکنالوجی کا بہت زیادہ استعمال کیا جا رہا ہے اور ورچوئل سپیس پر انتخابی مہم چلائی جا رہی ہے تاہم اس بار آزاد امیدواروں کا بڑی تعداد میں انتخابی عمل کا حصہ بننا ایک غیرمعمولی بات ہے۔‘
انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ 'آزاد امیدوار کی کلاسیکی تعریف کی جائے تو وہ ایک ایسا امیدوار ہوتا ہے جس کا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور وہ اپنے بل بوتے پر انتخابات میں کامیاب ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے، تاہم حالیہ عام انتخابات میں آزاد امیدوار ایک پارٹی کے حمایت یافتہ ہیں اور وہ ان کی مہم چلا رہی ہے۔‘
پروفیسر طاہر ملک کے بقول ’1985 میں ہونے والے غیرجماعتی انتخابات میں تمام امیدواروں نے ہی آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا تھا اور وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) کی قانونی حیثیت میں تبدیلی سے قبل یہاں کے امیدوار آزاد حیثیت میں ہی انتخابی عمل کا حصہ بنتے رہے ہیں۔‘
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ’ان انتخابات میں جو آزاد امیدوار حصہ لے رہے ہیں، وہ درحقیقت آزاد نہیں ہیں بلکہ وہ واضح سیاسی وابستگی رکھتے ہیں لیکن ووٹرز کے لیے اپنے امیدوار کے انتخابی نشان یاد رکھنے میں دشواری پیش آ رہی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ پچھلے انتخابات میں میاں نواز شریف اور جہانگیر ترین نے نااہل ہونے کے باعث حصہ نہیں لیا تھا تاہم اس بار یہ دونوں اہم رہنما حصہ لے رہے ہیں۔‘
پروفیسر طاہر ملک نے کہا کہ 'موجودہ انتخابی مہم مختصر رہی کیوںکہ ایک فریق انتخابی دوڑ سے باہر ہے تو انتخابی مہم میں مسابقت دکھائی نہیں دی۔ ایک اور اہم وجہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں نے اپنے منشور بہت تاخیر سے پیش کیے۔‘
موسم اور سکیورٹی کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کے شہری علاقوں میں سکیورٹی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ کراچی میں بھی امن و امان کے حالات ٹھیک ہیں۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں سکیورٹی کے مسائل موجود ہیں مگر ہم کامیابی سے یہ مرحلہ عبور کرلیں گے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ملک کے زیادہ تر حصوں میں موسم خوشگوار رہنے کی امید ہے تو اس لیے یہ کوئی بہت بڑا چیلنج ثابت نہیں ہو گا۔‘