پاکستان کے سابق وزیرِ اطلاعات اور طویل سیاسی تجربہ رکھنے والے سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ ’اس وقت ملک کو دہشت گردی اور معیشت کے بحران کا سامنا ہے اور سیاسی طور پر منقسم پاکستان کو دستِ شفا یا ’ہِیلنگ ٹَچ‘ کی ضرورت ہے۔‘
مشاہد حسین سید نے گذشتہ چار دہائیوں سے پاکستان کے انتخابات کور کرنے والے سعودی عرب کے سینیئر صحافی فہیم الحامد سےگفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ایک انوکھا الیکشن ہے۔ پاکستان کے لیے ایک مشکل وقت ہے۔ الیکشن میں شامل سیاسی جماعتیں تقسیم ہیں۔ یہ ایک ’پولرائزڈ پاکستان‘ ہے۔‘
اردو نیوز کی الیکشن 2024 کی کوریج سے متعلق پینل گفتگو جس کی میزبانی فهيم الحامد نے کی، کے دوران مشاہد حسین سید کے ساتھ انتخابی سیاست کے ماہر اور تجزیہ کار سرور باری بھی شریک تھے۔
مزید پڑھیں
-
اردو نیوز سروے: نواز شریف وزیرِاعظم مگر پی ٹی آئی سب سے مقبولNode ID: 833941
-
سیاسی جماعتیں اردو نیوز کے سروے کے حوالے سے کیا کہتی ہیں؟Node ID: 834221
گفتگو کے آغاز پر مشاہد حسین سید نے ماضی کی یادیں تازہ کرتے ہوئے فہیم الحامد سے کہا کہ ’میں نے آپ کو نوجوان رپورٹر کے طور پر کام کرتے اور انٹرویو کے لیے سابق پاکستانی وزرائے اعظم بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کا تعاقب کرتے ہوئے دیکھا ہے، آپ کو پاکستان میں برادر ملک سعودی عرب کے ممتاز صحافی کے طور پر جانا جاتا ہے۔‘
لوگ مسائل کا حل چاہتے ہیں
پاکستان کو درپیش چیلنجز معاشی مسائل، امن امان کی صورتِ حال اور بحرانوں سے متعلق پوچھے گئے سوال پر مشاہد حسین سید نے کہا کہ ’گذشتہ چھ برسوں میں (2017 سے 2024 تک) ہمارے چھ وزرائے اعظم تھے۔ میں تو اسے ’سافٹ کُو‘ کہتا ہوں، ایک حکومت آتی ہے اور ختم ہو جاتی ہے۔ لوگ ان مسائل کا حل چاہتے ہیں۔‘
![](/sites/default/files/pictures/February/36511/2024/election_coverage_3.jpg)
انہوں نے مزید کہا کہ ’کوئی ایک شخص، حکومت یا ادارہ یہ مسائل حل نہیں کر سکتا، یہ صورتِ حال مشترکہ لائحہ عمل کی متقاضی ہے جس کے لیے تمام سیاسی قوتوں کو مل کر کام کرنا ہو گا۔‘
’سیاسی جماعتوں کو ’رولز آف دی گیم‘ خود طے کرنا ہوں گے‘
مشاہد حسین سید کے مطابق ’دہشت گردی کا مقابلہ ہو، معاشی بحران ہو، یا ہیلنگ ٹَچ دینا ہو، تمام سیاسی جماعتوں کو ’رُولز آف دی گیم‘ خود طے کرنا ہوں گے ورنہ یہ اقتدار یا کرسی کے لیے نہ ختم ہونے والی دوڑ بن جاتی ہے۔‘
’اشرافیہ عوام کو حصہ نہیں دینا چاہتی‘
فہیم الحامد نے سرور باری سے پوچھا کہ ’آپ کے خیال میں پاکستان نے ماضی سے کیا سبق سیکھا ہے؟ پاکستان میں استحکام، خوشحالی اور گڈ گورننس کیسے لائی جا سکتی ہے؟
![](/sites/default/files/pictures/February/36511/2024/election_coverage_1.jpg)
انتخابی امور کے ماہر اور سینیئر تجزیہ کار سرور باری کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کا سب سے بڑا معاملہ ایک ایسی اشرافیہ ہے جو خود کوئی اتفاق رائے کرنے کو تیار ہے اور نہ ہی عوام کو ترقی میں کوئی حصہ دینا چاہتی ہے۔‘
انہوں نے پاکستان میں شرح خواندگی کی صورت حال کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان تعلیم کے لحاظ سے خطے میں سب سے زیادہ پسماندہ ہے۔ جنوبی ایشیا کے تمام ممالک میں شرح خواندگی 70 فیصد سے زیادہ ہے اور پاکستان میں ابھی تک 58 فیصد ہے۔ اگر خواتین کی شرح خواندگی دیکھیں تو وہ بہت ہی کم ہے۔‘
’کچھ علاقوں بالخصوص جنوبی پنجاب، بلوچستان اور دیہی سندھ میں خواتین کی شرح خوانگی 20/30 فیصد سے بھی کم ہے۔ کہیں کہیں تو 10 فیصد بھی ہے۔‘
’پاکستانی اشرافیہ کی عوام میں جڑیں نہیں ہیں‘
سرور باری نے ’ہیلنگ ٹچ‘ کی ضرورت کے مشاہد حسین سید کے خیال کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ’اشرافیہ اپنے ہی کسانوں اور مزدوروں پر ظلم کرتی رہی تو پاکستان میں کوئی ’ہیلنگ ٹچ‘ آ نہیں سکتا۔ پاکستان کے کل رجسٹرڈ ووٹرز میں سے کسی بھی حکومت کے پاس 18 فیصد سے زیادہ ووٹ بینک نہیں تھا۔‘
’پاکستان کی اشرافیہ کی عوام میں جڑیں نہیں ہیں۔ اگر وہ ایسا سمجھتے ہیں تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ وہ عوام کو کنٹرول کر سکتے ہیں لیکن 90 فیصد عوام کا گورننس سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔‘
’یہ ایک مسلسل خلا ہے جسے کوئی بھی ایسی نئی حکومت پُر کر سکتی ہے جو ایک نیا اور متقفہ نعرہ دے۔ توقع ہے کہ عوام اس کے پیچھے چلیں گے۔‘
گفتگو کا سلسلہ آگے بڑھاتے ہوئے فہیم الحامد نے کہا کہ ماضی میں جو ہو گیا، اس پر پاکستانی عوام اور فیصلہ ساز دوبارہ نہیں رونا چاہتے، وہ آگے بڑھنا چاہیے، آپ کے خیال میں اس کا کیا حل ہے؟
پاکستان کو درپیش مسائل کا حال کیا ہے؟
اس پر سرور باری باری کا کہنا تھا کہ ’میں یہ کہوں گا کہ سب سے پہلے پاکستان کی حکومت اور حکمران اشرافیہ آئین کے مطابق لوگوں کے مسائل حل کرے۔ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل تین کہتا ہے کہ ریاست ہر قسم کے استحصال کا خاتمہ کرے گی۔‘
![](/sites/default/files/pictures/February/36511/2024/gfqqex-xeaecxbz.jpg)