Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عام انتخابات 2024 کے سات اہم پہلو، عامر خاکوانی کا کالم

الیکشن تو ہوگیا، اس کے نتائج آپ کے سامنے ہی ہیں، حکومت سازی، جوڑ توڑ، ساتھ ملانے، توڑنے جوڑنے کا عمل بھی جلد شروع ہوجائے گا۔ سردست اس الیکشن کے چند اہم پہلوﺅں پر بات کر لیتے ہیں جواسے پچھلے انتخابات سے مختلف تھے۔
 سب سے پہلے پولنگ اور پوسٹ پولنگ کو لیتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ الیکشن والے دن موبائل فون سروس بند رکھی گئی۔ پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا۔ اس لیے کہ ووٹروں کے ساتھ انتظامیہ کے لیے بھی یہ بہت ضروری ہوتا ہے۔ اسی کے ذریعے رابطے رکھے جاتے ہیں۔ فون سروسز بند ہونے اور انٹرنیٹ نہ ہونے سے بڑا خلا پیدا ہوا، جس سے افواہیں بھی گردش کرتی رہیں۔
 پاکستان میں عاشورہ محرم پر دہشت گردی کے خوف سے موبائل فون سروسز بند رکھی جاتی ہیں۔ عام طور سے مغرب کے بعد فون سروسز ایک ایک کر کے کھل جاتی ہیں، رات آٹھ نو بجے تک سب کچھ نارمل ہوجاتا ہے۔ ہم نے پہلی بار دیکھا کہ الیکشن ہوجانے اور اس کے بھی کئی گھنٹوں بعد تک بدستور موبائل فون پر پابندی رہی۔ حتیٰ کہ رات گزر گئی اور نماز فجر کے قریب موبائل فون سروسز بحال ہوئیں۔
 انتخابی نتائج میں غیر معمولی تاخیر بھی ایک عجیب معاملہ بنا۔ پچھلے عام انتخابات میں آرٹی ایس سسٹم بیٹھ جانے کے باعث نتائج میں تاخیر ہوئی مگر رات کو دو تین بجے مینوئل نتائج بننے شروع ہوگئے تھے اور صبح چھ سات بجے تک بیشتر نتائج آ گئے تھے۔ اس بار صبح تک بمشکل فیصد نتیجے سامنے آئے۔ اس سب کچھ نے الیکشن کو متنازع، مشکوک اور قابل تنقید بنا دیا۔ خاص طور پر جو لوگ نتائج روکنے سے پہلے اچھی بھلی لیڈ لے رہے تھے، جب حتمی نتائج آنے پر وہ ہار گئے تو عام آدمی سمیت ٹی وی چینلز پر بیٹھے صحافیوں تک کو حیرت ہوئی۔
 چند ایک نتائج ایسے تھے جن سے بہت بھد اڑی ہے۔ لاہور میں مسلم لیگ ن اور استحکام پاکستان پارٹی کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے نتیجے میں این اے 127سے عون چودھری امیدوار تھے، ان کا مقابلہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ معروف قانون دان بیرسٹر سلمان اکرم راجہ سے تھا۔ یہ لاہور میں ن اور آئی پی پی کی سب سے کمزور سیٹ تھی۔ اس لیے بھی کہ یہ حلقہ لاہور میں تحریک انصاف کا سب سے مضبوط رہا ہے، یہاں سے وہ دو پچھلے انتخابات جیت چکے تھے۔ گلبرگ، گارڈن ٹاﺅن، اقبال ٹاﺅن جیسے پڑھے لکھے نسبتاً پوش علاقے اس میں آتے ہیں۔ یہاں سے نتیجہ بہت تاخیر سے آیا اور اس میں عون چودھری فاتح قرار پائے، دلچسپ بات یہ تھی کہ انہیں لاہور کی تاریخ کا سب سے بڑا ووٹ پڑا یعنی ایک لاکھ بہتر ہزار۔ لاہور کے چودہ حلقوں میں ن لیگ کو ملنے والا یہ سب سے زیادہ ووٹ ہے۔ یہ ایسی بات جس پر ن لیگ کے حامی حلقے بھی مضطرب ہوئے۔

 نواز شریف صاحب، مریم نواز، شہباز شریف نے بھی ایسے بہت سے وعدے کیے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

 یہی معاملہ لاہور میں بلاول بھٹو کے حلقے کا بنا، سیالکوٹ میں خواجہ آصف کے مقابلے میں ریحانہ امتیاز ڈار کی لیڈ اور گجرات میں چودھری پرویز الٰہی اور ان کی اہلیہ قیصرہ الٰہی کی مخالف چودھری سالک حسین پر بڑی لیڈ کے بعد ہارنا حیران کن لگا۔ اسلام آباد اور پنڈی کی نشستوں کے نتائج بھی بہت سے مبصروں کے لیے باعثِ حیرت تھی۔
 ٹرن آوٹ اور عوام کی غیر معمولی انداز سے شمولیت بھی بہت اہم فیکٹر رہا۔ پہلی بار موبائل فون کی عدم موجودگی اورتحریک انصاف کو انتخابی نشان نہ ملنے کے باوجود شہری اور دیہی حلقوں میں بہت جوش وخروش تھا ۔ لوگ صبح ساڑھے سات بجے سے پولنگ سٹیشن کے باہر قطاریں لگا کر کھڑے ہوگئے۔
ایسا ہم نے اپنی زندگی میں پہلی بار دیکھا۔ عوامی حلقوں کی ایسی بھرپور اور والہانہ شمولیت جمہوریت اور سیاست کے لئے بہت مثبت شگون ہے۔ بہت سے دیہی حلقوں کا ٹرن آوٹ بھی حیران کن رہا۔ میانوالی کی دو سیٹوں پر تحریک انصاف کے امیدواروں کو ایک پر دولاکھ دس ہزار اور دوسری سیٹ پرپونے دو لاکھ ووٹ ملے۔
جھنگ کی تینوں نشستوں پر بڑا ٹرن آوٹ پڑا، جیتنے والے لاکھ سے زیادہ ووٹ لے گئے۔ یہی کچھ لاہور، فیصل آباد اور دیگر جگہوں پر دیکھا گیا۔
 بیانیے کی جیت بھی ایک نیا عنصر تھا۔ یہ الیکشن کارکردگی یا وعدوں کی بنیاد پر نہیں لڑا جا سکا۔ بلاول بھٹونے پنجاب کے دورے میں جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے ووٹروں سے کئی پرکشش وعدے کئے۔ بجلی کے تین سو یونٹ مفت دینے کا اعلان کیا اور بھی بہت سی باتیں۔
پنجاب کے عوام نے بلاول کے ان اعلانات پر کوئی خاص توجہ نہیں دی، پی پی کو صرف وہی سیٹیں ملیں جہاں ان کے دو چار تگڑے الیکٹ ایبلز تھے، باقی جگہوں پر ان کے ووٹ ناقابل ذکر رہے۔ بلاول خود اپنی لاہور کی سیٹ پر تیسرے نمبر پر آئے۔
 نواز شریف صاحب، مریم نواز، شہباز شریف نے بھی ایسے بہت سے وعدے کیے ، کہیں سڑکیں، پل، اورنج ٹرین بنانے کے وعدے تو کہیں ایئرپورٹ بنانے کا دعویٰ، عوام نے الٹا کام کیا اور بیشتر جگہوں سے ن لیگ کے خلاف مینڈیٹ دیا۔
مانسہرہ جہاں تقریر کرتے ہوئے بڑے میاں صاحب نے بہت سے دعوے کئے، وہاں سے غیر حتمی غیر سرکاری نتائج کے مطابق وہ پچیس ہزار ووٹ کے فرق سے ہار گئے۔

 انتخابی نتائج میں غیر معمولی تاخیر بھی ایک عجیب معاملہ بنا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

 اس سب کے برعکس پی ٹی آئی کے پاس کوئی وعدہ نہیں تھا، ان کی حکومتی کارکردگی بھی کچھ غیر معمولی نہیں رہی جس کا حوالہ دیتے۔
دونوں صوبوں میں رہنے والے ان کے وزیراعلیٰ آج ان کے خلاف تھے۔ البتہ ان کا بیانیہ غیر معمولی رہا۔ اسے بہت اچھے طرح سے عوام تک پہنچایا ۔ یہ الیکشن بیانیہ پر لڑا گیا۔ یہ پاکستانی سیاست میں کم ہی ہوتا ہے۔ اس بار مگر ہوا۔
 برادریوں اور الیکٹیبلز کا غیر موثر ہوجانا بھی ایک نئی بات تھی۔ خیبر پختونخوا میں یہ بہت جگہوں پر ہوا، جہاں کئی کمزور اور نئے امیدواروں نے صرف پارٹی حمایت پر بے تحاشا ووٹ لیے۔ کئی ایسے امیدوار بھی جیت گئے جو مقامی نہیں تھے یا جن کی برادریاں سپورٹ نہیں کر رہی تھیں۔ پنجاب کے بھی بہت سے علاقوں میں ایسا ہوا۔ بڑی برادریوں کے دولت مند اور بااثر امیدوار تحریک انصاف کے ورکر ٹائپ لوگوں کے ہاتھوں شکست کھا گئے۔
 جی ٹی روڈ کی سیاست کی ناکامی بھی ایک فیکٹر بنا۔ مسلم لیگ کی اصل قوت اور مضبوطی سینٹرل پنجاب میں ہے۔ اس پر جی ٹی روڈ کی پارٹی ہونے کی پھبتی بھی کسی جاتی رہی۔ گوجرانوالہ، لاہور، سرگودھا اور ساہیوال ڈویژن اس کا گڑھ رہے ہیں۔ پچھلے انتخابات میں مسلم لیگ نے گوجرانوالہ کی پانچوں، سیالکوٹ کی پانچوں اور شیخوپورہ کی پانچ میں سے چار سیٹیں جیت لی تھیں۔ سرگودھا میں ان کی پوزیشن مضبوط رہی جبکہ ساہیوال، اوکاڑہ میں بھی یہ تگڑے رہے۔ اس بار تحریک انصاف نے اس میں بڑا ڈینٹ ڈالا۔ سیالکوٹ، گوجرانوالہ میں اہم سیٹیں بھی جیت لیں اور جو ہاریں، ان میں بھی سخت مقابلہ کیا۔ شیخوپورہ میں بھی اپ سیٹ ہوئے۔
ن لیگ کے اہم رہنما جاوید لطیف شیخوپورہ شہر سے خرم ورک سے ہار گئے۔ تحریک انصاف کے منور منج بھی جیت گئے جب کہ سرگودھا کی بھی آدھی سیٹیں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے جیت لیں۔ لاہور میں گو تحریک انصاف کو زیادہ سیٹیں نہیں ملیں، مگر انہوں نے ن لیگ کا سخت مقابلہ کیا اور ان کے کمزور امیدوار بھی ایک ایک لاکھ ووٹ لے گئے۔ ایسا لاہور کی سیاست میں پہلی بار ہوا۔ اب لاہور ن لیگ کا گڑھ نہیں رہا بلکہ لاہوری ووٹ تقسیم ہوگیا۔
 جنوبی پنجاب میں الیکٹیبلز کی سیاست ناکام ہونا ایک بڑا اہم فیکٹر ہے۔ ڈی جی خان کے سردار، رحیم یار خان کے مخدوم، بہاولپور کے نواب وغیرہ ہار گئے۔ اکثر جگہوں پر تحریک انصاف کے کمزور اور کارکن ٹائپ امیدوار جیت گئے۔
زرتاج گل نے ڈی جی خان شہر سے لغاری سرداروں کے مقابلے میں ساٹھ ستر ہزار ووٹ کے مارجن سے جیت حاصل کی، ڈی جی خان ، راجن پور،مظفر گڑھ اور کوٹ ادو وغیرہ میں تحریک انصاف بڑ ی قوت بن کر ابھری، وہاڑی میں اس نے اپ سیٹ کیے۔ بہاولپور کی شہری سیٹ جیتی بلکہ دیہی علاقوں میں بھی ان کے کمزور امیدوار ٹھیک ٹھاک ووٹ لے گئے۔ لودھراں میں کئی الیکشنز سے ناقابل شکست عبدالرحمن کانجو ہار گیا۔ ملتان شہر سے کمپین کے بغیر بھی عامر ڈوگر اور شاہ محمود قریشی کے صاحبزادے سیٹیں نکال گئے۔
رحیم یار خان سے تحریک انصاف نے شہر کے علاوہ خان پور اور میانوالی قریشی کی روایتی دیہی نشست بھی مخدوموں سے چھین لی۔ وہاں پر صوبائی اسمبلی کی سیٹوں پر بھی حیران کن اپ سیٹ ہوئے۔

بعض دیگر جگہوں پر بھی خواتین امیدواروں کی کارکردگی اچھی رہی۔ یہ بھی اچھا عنصر ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

 تحریک انصاف نے خاصی تعداد میں خواتین امیدواروں کو نامزد کیا تھا اور ان کی کارکردگی اچھی رہی۔ پشاور سے شاندانہ گلزار جیت گئیں۔ ڈی جی خان سے فاتح زرتاج گل کا ابھی ذکر ہوا، وہاڑی سے عائشہ نذیر جٹ سیٹ لے گئیں۔ سیالکوٹ سے ریحانہ ڈار اور گجرات سے قیصرہ الٰہی نے غیر معمولی کارکردگی دکھائی۔ پنڈی میں عذرا مسعود کو بڑے ووٹ ملے، لیہ میں مسز امبر مجید نیازی جیت گئیں، رحیم یار خان میں عمارہ کنول نے مخدوموں کو شکست دی، احمد پورشرقیہ سے کنول شازب نے ہارنے کے باوجود اچھے ووٹ لیے۔
بعض دیگر جگہوں پر بھی خواتین امیدواروں کی کارکردگی اچھی رہی۔ یہ بھی اچھا عنصر ہے۔
 ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا تکنیکس کو استعمال کر کے جس طرح تحریک انصاف نے اپنی کمپین بہت عمدگی سے چلائی۔ ان سے انتخابی نشان چھن گیا، مگر انہو ں نے کسی نہ کسی طرح سینکڑوں نئے نشانات کو اپنے ووٹروں تک فیس بک، واٹس ایپ، انسٹا گرام اور ٹک ٹاک وغیرہ کے ذریعے پہنچایا۔
اپنے حامیوں کو موٹیویٹ کرتے رہے اور انہیں گھروں سے صبح نکل کر ووٹ ڈالنے پر آمادہ کیا۔ تحریک انصاف نے ثابت کیا کہ ٹی وی، اخبارات میں بلیک آوٹ ہونے اور جلسے جلوس، ریلیاں نہ نکالنے دینے سے بھی کچھ خاص فرق نہیں پڑ سکتا۔
 یہ سب وہ چیزیں ہیں جو ہم نے پچھلے انتخابات میں نہیں دیکھی تھیں۔ ہماری دوسری سیاسی جماعتیں بھی ان سب سے مستقبل میں فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ بنیادی طور پر پاکستانی سیاست میں شامل ہونے والے یہ نئے ٹرینڈز ہیں جنہیں سراہنا چاہیے۔

شیئر: