Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’سائیں! ہمارا ووٹ آپ کا مگر لڑکوں کی قسم نہیں کھا سکتے،‘ عامر خاکوانی کا کالم

مشرف کے مارشل لا میں الیکشن ہوا تو ن لیگ کا تقریباً صفایا ہو گیا تھا (فائل فوٹو: اے ایف پی)
مخدوم رکن الدین رحیم یار خان کے معروف سیاست دان رہے ہیں۔ مخدوم رکن الدین کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے رہا تھا۔ مخدوم صاحب بڑے دلچسپ اور بذلہ سنج آدمی تھے، اپنی نجی محفلوں میں کھل کر گفتگو کرتے اور سیاسی واقعات بھی سناتے۔ برسبیل تذکرہ ان کے صاحبزادے مخدوم خسرو بختیار تحریک انصاف کے دور حکومت میں وزیر تھے، اب دور ہو چکے ہیں۔
مخدوم رکن الدین نے ایک بار بتایا کہ پاکستان کی سیاست اور ووٹر کی سوچ کے بارے میں مجھے ایک پسماندہ گاﺅں کے اَن پڑھ آدمی نے جو سبق دیا، اسے کبھی نہیں بھلا سکا۔
مخدوم صاحب کہنے لگے، محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی اسمبلی صدر غلام اسحاق خان نے توڑ دی تھی، الیکشن کا اعلان ہو گیا۔ الیکشن کیمپین چلاتے ہوئے میں ایک دور دراز کے گاﺅں پہنچا۔
وہاں پر مقامی لوگوں نے خیرمقدم کیا کہ مخدوم صاحب آئے ہیں۔ لوگ جمع ہو گئے۔ میں نے گفتگو شروع کی، پہلے محترمہ بے نظیر بھٹو کی خوبیاں، خاندانی نجابت اور قربانیاں گنوائیں، بھٹو صاحب کی پھانسی کا ذکر کیا اور پھر بتایا کہ کس طرح بی بی کو کام نہیں کرنے دیا گیا، ورنہ وہ عوام کی تقدیر بدلنا چاہتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔
مخدوم رکن الدین بتاتے ہیں کہ میں نے اپنی تقریر کے اختتام میں لوگوں کو پی پی پی کے نشان تیر پر ووٹ ڈالنے کا کہا۔ اس پر خاموشی چھا گئی۔ میرے ساتھی اور میں ایک دوسرے کا منہ تک رہے تھے ، کسی کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کریں۔ اتنے میں ایک بوڑھا آدمی کھڑا ہوا۔
اپنے کاندھے پر پڑے میلے سے رومال سے منہ صاف کیا اور پھر سرائیکی میں کہنے لگا، مخدوم صاحب آپ آئے ہیں، ہمارے سر آنکھوں پر ، مگر آپ اسے ووٹ ڈالنے کا کہہ رہے ہیں ناں جسے نکال دیا گیا ہے؟ آپ خود ہی بتائیں کہ جسے نکالا ہے، اسے واپس تو نہیں آنے دیا جائے گا، ہم اپنا ووٹ کیوں ضائع کریں؟

سب کو یہی خدشہ ہے کہ خاموش اکثریت الیکشن ڈے پر باہر نکل کر سب کچھ الٹ پلٹ کر دے گی (فائل فوٹو: اے ایف پی)

مخدوم صاحب کے بقول انہیں ایسے صاف، سیدھے اور دندان شکن قسم کے جواب کی توقع نہیں تھی۔ دریائے سندھ کے بیٹ کے آخری کنارے پر آباد گاﺅں کے اس ان پڑھ بوڑھے نے مجھے لاجواب کر دیا۔
مخدوم رکن الدین کی بات اپنی جگہ ٹھیک ہے۔ پاکستانی سیاست اسی قسم کے نتائج ہی بتاتی، سکھاتی ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی اسمبلی ٹوٹ گئی، الیکشن ہوئے، پیپلزپارٹی ہار گئی اور میاں نواز شریف وزیراعظم بن گئے۔ میاں صاحب کا صدر غلام اسحاق خان سے ٹکراﺅ ہوا، ان کی اسمبلی توڑ دی گئی، اگرچہ بعد میں اسحاق خان کو بھی جانا پڑا، مگر الیکشن کے نتیجے میں ن لیگ کو شکست ہوئی اور بی بی وزیراعظم بنیں، اگلی بار بی بی آﺅٹ ہو گئیں۔
مشرف کے مارشل لا میں الیکشن ہوا تو ن لیگ کا تقریباً صفایا ہو گیا۔ اس لحاظ سے اس ان پڑھ دیہاتی بابے کی بات تو بالکل درست تھی کہ جسے نکالا ہے، اسے واپس تو نہیں آنے دیں گے۔ اپنے اعتبار سے اس کا یہ فیصلہ بھی درست تھا کہ ایک ہارنے والی پارٹی کو ووٹ ڈال کر ضائع کیوں کیا جائے؟ اسے کیوں نہ دیں جس کی جیت یقینی ہے۔
 ملین ڈالر سوال مگر آج یہی ہے کہ آخر تحریک انصاف کے معاملے میں یہ چیز الٹ کیوں ہو گئی ہے؟ ہر کوئی جانتا ہے کہ تحریک انصاف الیکشن نہیں جیت پائے گی، ایسا ہونے ہی نہیں دیا جائے گا۔
عام ووٹر کو پتہ ہے کہ تحریک انصاف کو ڈالا گیا ووٹ ضائع ہی ہو گا۔ اس کے باوجود پنجاب اور خیبر پختونخوا کے ووٹرز کا بڑا حلقہ اپنی وابستگی تبدیل کرنے کو تیار نہیں۔
 یہ ہم نے پچھلے سال ہونے والے دو ضمنی انتخابات میں دیکھ لیا۔ پہلے 17 جولائی کو پنجاب میں 20 حلقوں پر انتخاب ہوا تو بیشتر تحریک انصاف نے جیت لیے اور بعض جگہوں پر طاقتور الیکٹ ایبل بھی ہار گئے ۔
 16 اکتوبر کو تینوں بڑے صوبوں کے چند حلقوں میں انتخابات ہوئے تو وہی نتیجہ آیا۔ جہاں ایک طرف پشاور، مردان ،کرم، فیصل آباد وغیرہ کے حلقوں سے عمران خان بڑے مارجن سے کامیاب ہوئے، وہیں ننکانہ جیسے خالص دیہی حلقے سے بھی نوے پچانوے ہزار ووٹ لے کر تحریک انصاف جیت گئی۔
راجن پور میں جعفر خان لغاری مرحوم کے حلقے میں ہونے والا ضمنی الیکشن وہ آخری پیمانہ تھا جس کے ذریعے اس ٹرینڈ کو اچھی طرح چیک کیا گیا۔

نوجوان ووٹر بہت بڑھ گئے ہیں اور ان کے سوچنے کا انداز بھی اپنے بزرگوں سے یکسر مختلف ہے (فائل فوٹوز: اے پی پی، اے ایف پی)

یہاں پر محسن لغاری تحریک انصاف کے امیدوار تھے اور ان کا مقابلہ طاقتور لغاری خاندان سے تھا، حکومت، انتظامیہ اور مقامی شخصیات اکھٹی ہو کر محسن لغاری کو ہر حال میں ہرانے پر تلی ہوئی تھیں۔
اویس لغاری جیتنے کے لیے اس قدر پراعتماد تھے کہ وہ الیکشن ڈے پر 11 بجے چوٹی زیریں سے حلقے میں پہنچے ۔ نتیجہ آیا تو پتہ چلا کہ محسن لغاری 35 ہزار ووٹوں کے مارجن سے جیت گئے۔
ڈی جی خان کے ایک مقامی صحافی نے دلچسپ تبصرہ کیا کہ یاجوج ماجوج کی قوم صبح سویرے باہر نکل آئی اور الیکشن کا نتیجہ الٹ دیا۔ ان کا اشارہ ان ہزاروں نوجوانوں کی طرف تھا جنہوں نے صبح آٹھ نو بجے ہی سے پولنگ سٹیشن پہنچ کر اپنے ووٹ کاسٹ کر ڈالے۔
 آج یہ بات بہت سوں کو سمجھ نہیں آ رہی کہ آخر عام ووٹر اپنی پرانی نفسیات سے ہٹ کر کیوں فیصلے کر رہا ہے؟ مختلف وجوہات بیان کی جاتی ہیں، ان میں سے بعض صرف غصے اور چڑچڑے پن میں کی گئی باتیں ہیں۔ جیسے عمران خان ہینڈسم ہے اس لیے اس کے حامی کم نہیں ہو رہے۔ عمران خان کی حمایت سوشل میڈیا کی وجہ سے ہے۔ پی ڈی ایم حکومت کی ناقص کارکردگی نے ایسا کرایا۔ مہنگائی بہت ہوگئی ، اس کا عوام کو غصہ ہے وغیرہ وغیرہ ۔
عمران خان جب واقعی ہینڈسم تھا، یعنی آج سے 24 سال پہلے(1997) ، تب تو اس کی پارٹی ملک بھر سے بری طرح ہار گئی۔ خان صاحب کو ایک سیٹ بھی نہ مل سکی، ان کا ورلڈ کپ جیتنا بھی تب کوئی کام نہیں آیا۔ویسے بھی عمران خان کے بیشتر حامی اور ووٹر تو 92 کے ورلڈ کپ کے دنوں میں پیدا ہی نہیں ہوئے ہوں گے۔
اسی طرح اگر صرف سوشل میڈیا چمتکار کر سکتا تو ن لیگ کے بھی سوشل میڈیا سیل ہیں، پروپیگنڈہ وہ بھی کم نہیں کرتے۔ پی ڈی ایم حکومت کی ناقص کارکردگی اور مہنگائی کا بھی کچھ عمل دخل ہو گا، مگراب تو چھ ماہ سے نگران حکومت ہے، عوامی ناپسندیدگی کا رخ اس طرف ہے۔ اس کا فائدہ بھی سابق پی ڈی ایم پارٹیوں کو نہیں ہو رہا۔
اصل بات جسے سمجھا نہیں جا رہا کہ ہمارے روایتی ووٹ بینک میں بہت تبدیلیاں آ چکی ہیں۔ نوجوان ووٹر بہت بڑھ گئے ہیں اور ان کے سوچنے کا انداز بھی اپنے بزرگوں سے یکسر مختلف ہے۔
اٹھارہ سے تیس پینتس سال عمرکے یہ لوگ لگے بندھے روایتی حساب کتاب سے ہٹ کر سوچتے ہیں اور اپنا فیصلہ خود کرنا چاہتے ہیں۔
صرف شہروں میں نہیں بلکہ بہت سے دیہات میں بھی عملی صورتحال اسی لیے مختلف ہو چکی ہے۔ پچھلے سال بھکر میں نوانی خاندان جیسے طاقتور الیکٹ ایبل بھی زچ ہوگئے جب انہیں انتخابی مہم میں دیہات کے بڑے بوڑھوں نے ہاتھ جوڑ کر صاف کہہ دیا کہ ’سائیں! ہمارا ووٹ آپ ہی کو، مگر ان لڑکوں کی قسم ہم نہیں کھا سکتے‘ اور پھر وہی ہوا۔ کئی بار الیکشن جیتنے والے نوانی صاحب ضمنی الیکشن ہار گئے۔

24 سال پہلے 1997 میں عمران خان ایک سیٹ بھی نہیں جیت سکے تھے۔ فوٹو: اے ایف پی

اس بار بھی سینٹرل پنجاب کے شہری، نیم دیہی اور دیہی ووٹر ہوں یا جنوبی پنجاب کے پسماندہ علاقوں کے دیہی ووٹر ہر جگہ یہی لہر چل رہی ہے۔ ملتان، مظفر گڑھ، ڈی جی خان، راجن پور، بہاولپور، رحیم یار خان ....ہر جگہ کم وبیش یہی صورتحال ہے۔
میرے نزدیک وجوہات دو تین ہیں۔ ایک تو لوگ اپنا فیصلہ خود کرنا چاہتے ہیں،وہ خاندان یابرادری کے بزرگوں کے دباﺅ کو ماننے کو تیار نہیں، مقامی انتظامیہ یا پولیس کا دباﺅ بھی ان کے لیے بے معنی ہے۔ایسا نہیں کہ وہ عمران خان سے عقیدت میں مبتلا ہیں۔صرف ڈیڑھ سال پہلے ان میں سے بہت سے خان کے مخالف بھی ہو گئے تھے، مگر اب چونکہ وہ مظلوم فریق بن چکا ہے، مزاحمت کر رہا ہے، اس لیے لوگ بھی اسے چھوڑنے کو تیار نہیں۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ یوتھ ووٹ بینک کا بڑا حصہ سٹیٹس کو کی موجودہ صورتحال سے بیزار ہے۔ وہ تبدیلی چاہتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تحریک انصاف نے تبدیلی کا نعرہ کچھ یوں اپنا لیا کہ اب دوسری کوئی جماعت تبدیلی لانے کی بات تک نہیں کرتی۔ ن لیگ اور پی پی، جے یوآئی تو کرپشن کے خلاف نام نہاد نعرے بھی نہیں لگاتیں۔ اس لیے جو ووٹر سسٹم میں تبدیلی لانا، کرپشن سے نجات چاہتا ہے، اس کے لیے تحریک انصاف ہی واحد آپشن ہے۔
خاموش اکثریت یا سائیلنٹ میجورٹی کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے، اس وقت حکومت ہو یا مقتدر قوتیں یا پھر ن لیگ، پی پی اور جے یوآئی وغیرہ، ان سب کو یہی خدشہ ہے کہ خاموش اکثریت تحریک انصاف کے ساتھ ہے اور وہ الیکشن ڈے پر باہر نکل کر سب کچھ الٹ پلٹ کر دیں گے۔
یہی وہ خوف ہے جس کے باعث الیکشن سے پہلے یہ تمام اضطراب ، پکڑ دھکڑ، کاغذات نامزدگی چھیننا، نااہلی وغیرہ کا کھیل جاری ہے۔ یہ خوف الیکشن تک رہے گا۔ اس لئے یہ سب کچھ بھی چلتا رہے گا۔
 پاکستانی سیاست میں جو آج ہو رہا ہے، اس کی مثال پچھلے 70 برسوں میں نہیں ملتی۔ یہ انہونی پہلی بار ہوئی ہے۔ لگتا ہے کہ ابھی اور بہت کچھ ہو گا۔بہت کچھ۔

شیئر: