فلم میں تمباکو کے ایک 23 سالہ تاجر صنم کی کہانی دکھائی گئی جو نئے آنے والے رائد الشماری نے صحرا کے پار سفر کرتے ہوئے دکھایا ہے۔
ہدایت کار محمد العطاوی نے ریلیز سے قبل فلم بنانے کے عمل اور اس میں درپیش چیلنجز کے بارے میں بات کی ہے۔
فلم کا ہیرو ایک بھیڑیے کے ساتھ سفر کرتا ہے جب وہ اپنے سفر میں جدوجہد کر رہا ہوتا ہے۔ انسان اور بھیڑیے کے درمیان ایسا تعلق دکھایا گیا ہے جو دوستی اور ہم آہنگی میں بدل جاتا ہے۔
ہدایت کار نے بتایا ہے کہ فلم میں نام کے حوالے سے انہوں نے شمالی سعودی عرب کے صحرا کو اس انداز میں پیش کرنے پر توجہ رکھی ہے جو اس کی پراسرار خوبصورتی کے ساتھ صحرا کی سخت فطرت پر روشنی ڈالے۔
فلم کی پوری داستان صحرا میں ہے اور ہم نے بھیڑیے کے ساتھ صنم کے سفر کا مشاہدہ دکھایاہے ہیں، فلم کی کہانی کے ساتھ ماحول اہم ہے۔
فلم کے پیچھے محرکات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’بھیڑیے کے ساتھی‘ کی کہانی تقریباً سعودی ثقافت میں ایک لوک کہانی کی طرح ہے لیکن اس بارے میں زیادہ تفصیلات نہیں لہذا میں نے اصل حقائق کے ساتھ اس تک پہنچنے کی کوشش کی ہے۔
دریں اثناء پروڈیوسر ریم العطاوی اور جانا دہلوی نے پروڈکشن ٹیم کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ فلم کی پروڈکشن میں 60 فیصد سے زیادہ سعودی عملہ شامل رہا۔
جانا دہلوی نے بتایا کہ فلم میں 20 سے زائد دیگر قومیتوں کے تکینکی عملے نے بھی تبوک کے علاقے سے خدمات انجام دی ہیں۔
ریم العطاوی نے مزید بتایا کہ اس علاقے کے لوگوں کی انسیت خاص طور پر یہاں رہنے والے بنی عطیہ قبیلے اور ان کی بے پناہ حمایت نے ہماری ٹیم کے لیے آسانی پیدا کی ہے۔
اس فلم کی پروڈکشن ٹیم کو نیوم میڈیا انڈسٹریز کی طرف سے مکمل لاجسٹک سپورٹ حاصل رہی ہے اور ’السارڈ فلمز‘ کی یہ پہلی ریلیز بھی ہے۔