’پیپلز پارٹی فیورٹ‘، بلوچستان میں حکومت سازی کے لیے جوڑ توڑ
’پیپلز پارٹی فیورٹ‘، بلوچستان میں حکومت سازی کے لیے جوڑ توڑ
جمعرات 15 فروری 2024 10:20
زین الدین احمد، -اردو نیوز، کوئٹہ
سنہ 1970 میں صوبہ بننے کے بعد سے بلوچستان میں کبھی کسی جماعت نے اکیلے حکومت نہیں بنائی (فائل فوٹو: اے پی پی)
بلوچستان میں حکومت سازی کے لیے جوڑ توڑ جاری ہے۔ پیپلز پارٹی کے بعد مسلم لیگ ن کی صوبائی قیادت نے بھی کوششیں تیز کر دی ہیں۔
بلوچستان میں اب تک صورتحال واضح نہیں ہے کہ کون سی جماعت حکومت بنا پائے گی تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت بننے کے امکانات زیادہ ہیں۔ آزاد امیدواروں میں زیادہ تر کا رجحان پیپلز پارٹی کی طرف ہے۔
وزارت اعلٰی کے لیے پیپلز پارٹی کی جانب سے سرفراز بگٹی، نواب ثنااللہ زہری، علی مدد جتک اور صادق عمرانی مضبوط جبکہ ن لیگ کی جانب سے جام کمال خان مضبوط امیدواروں میں شامل ہیں۔
بلوچستان میں حکومت بنانے کے لیے65 رکنی ایوان میں 33 ارکان کی ضرورت ہے تاہم کسی بھی جماعت کو سادہ اکثریت حاصل نہیں، اس لیے صوبے میں ماضی کی روایات کے مطابق مخلوط حکومت بنے گی۔
عام انتخابات میں بلوچستان اسمبلی کی 51 جنرل نشستوں میں سے پیپلز پارٹی نے سب سے زیادہ 11 نشستیں حاصل کی ہیں۔ مسلم لیگ ن اور جمعیت علمائے اسلام 10، 10 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں۔
بلوچستان عوامی پارٹی پانچ نشستوں کے ساتھ چوتھی بڑی جماعت بنی ہے۔
بلوچستان اسمبلی میں خواتین کے لیے 11 اور اقلیتوں کے لیے تین نشستیں مخصوص ہیں جو تناسب کے حساب سے تقسیم کی جائیں گی۔ تینوں بڑی جماعتوں کو خواتین کی دو دو اور اقلیت کی ایک ایک مخصوص نشست جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی کو خواتین کی ایک نشست ملنا یقینی ہے تاہم آزاد امیدواروں کی شمولیت کی صورت میں مخصوص نشستوں کی تعداد بڑھ سکتی ہے۔
کامیاب ہونے والے چھ آزاد امیدوار
بلوچستان اسمبلی کی چھ نشستوں پر آزاد امیدوار کامیاب ہوئے ہیں جن میں بخت محمد کاکڑ، ولی محمد نورزئی، لیاقت علی لہڑی، اسفند یار کاکڑ، کیپٹن ریٹائرڈ عبدالخالق اچکزئی اور مولوی نوراللہ شامل ہیں۔
مولوی نوراللہ کے علاوہ باقی پانچوں آزاد ارکان پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ ن میں سے کسی جماعت میں جا سکتے ہیں۔ تاہم بلوچستان عوامی پارٹی نے بھی آزاد ارکان سے رابطے کیے ہیں ۔ آزاد ارکان کی شمولیت کی صورت میں سیاسی جماعتوں کو اضافی مخصوص نشستیں ملیں گی اور ان کی پوزیشن مزید مضبوط ہو جائے گی۔
مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے آزاد امیدواروں سے رابطے تیز کر لیے ہیں اور انہیں اپنی اپنی جماعت میں شمولیت کی دعوت دی ہے۔
مسلم لیگ ن نے کوئٹہ میں حکومت سازی کے لیے مشاورتی اجلاس کیا جس میں سابق وزیراعلٰی جام کمال خان، صوبائی صدر جعفر خان مندوخیل اور ن لیگ کے نومنتخب ارکان شریک تھے۔
آزاد امیدواروں کی شمولیت کا انتظار
مسلم لیگ ن کے صوبائی جنرل سیکریٹری جمال شاہ کاکڑ نے اردو نیوز کو بتایا کہ اس وقت پیپلز پارٹی، ن لیگ اور جمعیت علمائے اسلام کی پوزیشن تقریباً برابر ہے۔ آزاد امیدواروں کی شمولیت کے بعد پارٹیوں کی پوزیشن واضح ہو جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اصولاً جس جماعت کے پاس اکثریت ہے وہی حکومت بنانے کا حق رکھتی ہے، اس لیے سارا دارومدار آزاد امیدواروں پر ہے۔ آزاد امیدوار جس جماعت میں گئے، وزیراعلٰی اسی جماعت کا آئے گا۔‘
جمال شاہ کاکڑ کا کہنا تھا کہ ’ہماری پوری کوشش ہے کہ آزاد امیدواروں کو اپنےساتھ ملائیں۔ اب تک مرکز میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے ایسی کوئی بات طے نہیں کی کہ بلوچستان میں کون سی جماعت حکومت بنائے گی۔ ہم سیاسی جماعتوں سے بھی رابطوں میں ہیں۔‘
آزاد منتخب ہونے والے دو ارکان اسمبلی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے نام ظاہر نہ کرنے کی صورت میں بتایا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن دونوں جماعتوں کی قیادت رابطے ہیں ہم نے ابھی تک کسی پارٹی میں شمولیت کا فیصلہ نہیں کیا تاہم اس گفتگو میں دونوں ارکان کا رجحان پیپلز پارٹی کی طرف محسوس ہوا۔
ذرائع کے مطابق دونوں ارکان نے وزارتیں ملنے کی صورت میں پیپلز پارٹی میں شمولیت کی یقین دہانی کرائی ہے۔
کوئٹہ کے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار کہتے ہیں کہ ’آزاد ارکان اسی جماعت میں جائیں گے جس کے بارے میں انہیں یقین ہو کہ وہ حکومت بنائے گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پیپلز پارٹی کی بلوچستان میں حکومت بنانے کے امکانات بڑھ گئے ہیں کیونکہ وہ سب سے بڑی جماعت ہے اور اس نے اپنی کوششیں بھی تیز کر دی ہیں۔ وہ آزاد امیدواروں سے رابطے میں ہے اور ان کی مرکزی قیادت بھی بلوچستان میں حکومت بنانے میں زیادہ دلچسپی لے رہی ہے۔‘
شہزادہ ذوالفقار کے مطابق اس کے مقابلے میں ن لیگ کی دلچسپی کم نظر آ رہی ہے۔ ان کی توجہ پنجاب اور مرکز میں حکومت سازی پر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’بلوچستان میں حکومت سازی کا انحصار ایک بار پھر مرکز کے معاملات پر ہو گیا ہے۔ بلوچستان میں اپنی پوزیشن کو دونوں جماعتیں مرکز میں حکومت سازی، صدر مملکت، چیئرمین سینیٹ، سپیکر قومی اسمبلی اور دیگر اہم عہدوں کی تقسیم میں استعمال کریں گی۔‘
’زرداری بلوچستان میں حکومت بنانا چاہتے ہیں‘
شہزادہ ذوالفقار نے کہا کہ ’پیپلز پارٹی وفاق میں ن لیگ کی حمایت کر رہی ہے تو اس کے بدلے میں وہ اہم عہدے لے گی۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے اپنے والد آصف زرداری کے لیے صدارت کے عہدے کی خواہش کی ہے۔ ن لیگ کو وزارت عظمیٰ ملے گی۔ اگر پیپلز پارٹی نے صدارت کا عہدہ لیا تو حساب برابر ہو جائے گا اور بلوچستان میں حکومت کے لیے دونوں جماعتیں فیصلوں میں آزاد ہوں گی۔‘
ان کے مطابق ’آصف علی زرداری بلوچستان میں حکومت بنانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان کے پاس مسلم لیگ ن کے مقابلے میں وزارت اعلٰی کے مضبوط امیدواروں کی تعداد بھی زیادہ ہے جن میں سابق نگراں وفاقی وزیر داخلہ سرفراز احمد بگٹی اور سابق وزیراعلٰی بلوچستان نواب ثنااللہ زہری شامل ہیں جبکہ ن لیگ میں جام کمال کے علاوہ وزارت اعلٰی کے لیے زیادہ مضبوط امیدوار موجود نہیں۔‘
پیپلز پارٹی کے وزارت اعلٰی کے امیدواروں میں سابق صوبائی وزراء اور پارٹی کے سابق صوبائی صدور علی مدد جتک اور صادق عمرانی بھی شامل ہیں۔
جام کمال خان بلوچستان اسمبلی کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی کی نشست پر بھی کامیاب ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں یہ خبر پھیل رہی تھی کہ جام کمال وزارت اعلٰی کی دوڑ سے باہر ہو کر قومی اسمبلی کی نشست رکھنا چاہتے ہیں تاہم جام کمال خان نے ان خبروں کی تردید کی اور کہا کہ ابھی تک انہوں نے ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’مسلم لیگ ن بلوچستان میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے اور اس سلسلے میں سیاسی جماعتوں اور آزاد امیدواروں سے رابطے کیے جا رہے ہیں۔
کوئٹہ کے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار خلیل احمد کہتے ہیں کہ ’جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے اپوزیشن میں بیٹھنے کا اعلان کیا ہے جس کے بعد زیادہ امکان یہ ہے کہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور بلوچستان عوامی پارٹی مل کر حکومت بنا لیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت تک بلوچستان میں حکومت بنانے کے لیے پیپلز پارٹی فیورٹ ہے۔‘
نیشنل پارٹی کے تین، عوامی نیشنل پارٹی کے دو، بی این پی عوامی، بلوچستان نیشنل پارٹی، حق دو تحریک اور جماعت اسلامی کا ایک ایک رکن بھی کامیاب ہوا ہے۔ نیشنل پارٹی کو خواتین کی ایک مخصوص نشست ملنے کا بھی امکان ہے۔
’بی اے پی کے امکانات زیادہ نہیں‘
خلیل احمد کہتے ہیں کہ ’اے این پی اور بی این پی عوامی حکومتوں کا حصہ رہی ہیں اور اب بھی ان کی خواہش ہو گی کہ حکومت میں حصہ لیں تاہم بڑی جماعتوں نے مل کر حکومت بنا لی تو انہیں چھوٹی جماعتوں کی ضرورت نہیں پڑے گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی، حق دو تحریک اور جماعت اسلامی حزب اختلاف کی نشستوں پر بیٹھے گی۔
خلیل احمد کے مطابق ’بلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی بھی وزارت اعلٰی کے خواہش مند ہیں تاہم ان کی جماعت کے پاس صرف پانچ ارکان ہیں۔ بی اے پی کے امکانات تو زیادہ نہیں لیکن اگر پانچ آزاد ارکان ان کے ساتھ شامل ہو جائیں تو مخصوص نشستوں کو ملا کر بی اے پی کی تعداد 12 سے 13 تک جا سکتی ہے جس کے بعد وہ بھی مضبوط پوزیشن میں آ سکتی ہے۔‘
پیپلز پارٹی کے نومنتخب رکن بلوچستان اسمبلی علی مدد جتک کا کہنا ہے کہ ’ابھی تک پارٹی نے وزارت اعلٰی کے امیدوار کے نام کو حتمی شکل نہیں دی۔ وزیراعلٰی جیالا ہی بنے گا اور جلد نام کا اعلان کر دیا جائے گا۔‘
بلوچستان میں کبھی ایک پارٹی کی حکومت نہیں بنی
سنہ 1970 میں صوبہ بننے کے بعد سے بلوچستان میں کبھی کسی جماعت نے اکیلے حکومت نہیں بنائی اور صوبے میں ہمیشہ مخلوط حکومتیں بنتی آرہی ہیں۔
سنہ 2018 میں بلوچستان عوامی پارٹی نے تحریک انصاف، بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی)، عوامی نیشنل پارٹی، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی اور جمہوری وطن پارٹی پر مشتمل سات جماعتی اتحاد بنا کر حکومت بنائی تھی۔
اس سے قبل 2013 میں مسلم لیگ ن، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی نے جبکہ 2008 میں پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ ق، جمعیت علمائے اسلام، بی این پی عوامی اور دیگر جماعتوں کو ملا کر حکومت بنائی۔