Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ارکان جو اب بھی اشتہاری

کئی سیاسی جماعتیں الیکشن میں دھاندلی کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں(فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد ملک کی سیاسی صورت حال اور بھی پیچیدہ ہو گئی ہے۔
تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار ایک بڑی تعداد میں نہ صرف قومی اسمبلی میں پہنچے ہیں بلکہ خیبرپختونخوا اور پنجاب اسمبلی میں بھی بڑی تعداد ایسے نومنتخب اراکین ہے جو تحریک انصاف سے منسلک ہیں۔
جمعرات کو لاہور کی انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے نو مئی کے واقعات میں ملوث 11 ملزمان کی جائیدادیں ضبط کرنے کا حکم دیا ہے جو اشتہاری ہو چکے ہیں۔ ان میں دو ایسے ملزم ہیں جو اشتہاری ہونے کے باوجود صوبائی اسمبلی کے الیکشن جیت چکے ہیں بلکہ میاں اسلم اقبال کو تحریک انصاف نے پنجاب کے وزیراعلیٰ کا امیدوار بھی نامزد کر دیا ہے۔
دوسرے نومنتخب رکن حافظ فرحت ہیں جن کی جائیداد کی قُرقی کا حکم ہوا ہے، وہ ابھی تک روپوش ہیں۔ ان کا شمار عمران خان کے قریب ترین ساتھیوں میں رہا ہے۔
عمران خان کی گرفتاری سے قبل جو چند افراد ان کے ارد گرد رہ گئے تھے، ان میں حافظ فرحت سرفہرست تھے۔ ایک اور اشتہاری علی امتیاز شیخ بھی صوبائی رکن منتخب ہو گئے ہیں جبکہ زبیر نیازی نے اشتہاری ہونے کے باوجود الیکشن لڑا تاہم وہ یہ نشست ہار گئے۔
تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ اس نشست پر دھاندلی ہوئی ہے۔ پنجاب سے پی ٹی آئی کے امیدواروں کی ایک بڑی تعداد ہے جنہوں نے روپوشی میں یا عدالتوں سے مفرور ہونے کی حیثیت سے الیکشن میں حصہ لیا۔

نومنتخب رکن حافظ فرحت ہیں جن کی جائیداد کی قُرقی کا حکم ہوا ہے(فائل فوٹو: سکرین گریب)

خالد گجر اور شبیر گجر بھی ابھی تک فرار ہیں۔ اسی طرح یاسر گیلانی بھی اشتہاری ہیں لیکن وہ الیکشن ہار گئے ہیں۔ تحریک انصاف اس سیٹ پر بھی دھاندلی کا الزام عائد کر رہی ہے۔
غلام محی الدین دیوان اشتہاری ہیں تاہم ان کی اہلیہ صبا دیوان نے انتخاب میں حصہ لیا۔ وہ صوبائی نشست پر امیدوار تھیں۔ اسی طرح سعید سدھو جو کہ اشتہاری ہیں، ان کے بھائی شکیل سدھو نے الیکشن میں حصہ لیا۔ تحریک انصاف کا موقف ہے کہ وہ ان تمام نشستوں پر جیتی ہے۔
اسی طرح سیالکوٹ سے سعید بھلی اور عمر جاوید گھمن بھی اشتہاری ہیں۔ تحریک انصاف کا ماننا ہے کہ وہ یہ دونوں نشستیں جیت چکے ہیں۔

خیال کاسترو فیصل آباد سے صوبائی اسمبلی کی نشست جیتنے کے بعد اب دوبارہ روپوش ہیں (فائل فوٹو: خیال کاسترو، فیس بک)

فیصل آباد سے شیخ وقاص اکرم بھی اشتہاری ہیں تاہم وہ قومی اسمبلی کی نشست جیت چکے ہیں جبکہ ان کے والد شیخ اکرم نے بھی صوبائی نشست جیت لی ہے۔
خیال کاسترو کا تعلق فیصل آباد سے ہے۔ گزشتہ اسمبلی میں تحریک انصاف کے پنجاب میں وزیر بھی رہے ہیں۔ وہ اشتہاری تھے، جب اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروانے آئے تو پولیس نے انہیں گرفتار کر لیا۔ لیکن پھر انہیں ضمانت مل گئی۔ وہ صوبائی اسمبلی کی نشست جیتنے کے بعد اب دوبارہ روپوش ہیں۔
اسی طرح لطیف نذر اور عادل گجر بھی اشتہاری تھے۔ انہوں نے انتخابات میں حصہ لیا اور تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ وہ یہ دو نشستیں بھی جیتے ہوئے ہیں۔
گوجرانوالہ سے احمد چٹھہ، بلال اعجاز، حسن بٹر، علی وکیل، ناصر چیمہ اور مہر واجد بھی اشتہاری قرار دیے گئے تھے لیکن انہوں نے انتخابات میں حصہ لیا۔ دوسری جانب اسی شہر سے مسز راشدہ طارق منتخب ہوئی ہیں جن کے خاوند اور بیٹا ابھی تک اشتہاری ہیں۔
اگر خیبرپختونخوا کی بات کریں تو وہاں کے نامزد وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور بھی اشتہاری تھے۔ وہ ضمانت کے بعد روپوش ہو گئے اور چند روز قبل وہ منظرعام پر آئے ہیں۔

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے لیے نامزد علی امین گنڈاپور بھی چند روز قبل وہ منظرعام پر آئے(فائل فوٹو: سکرین گریب)

سابق صوبائی وزراء عاطف خان، تیمور جھگڑا، کامران بنگش، شوکت یوسفزئی اور فضل الہٰی چند بڑے نام ہیں جو اشتہاری تو نہیں ہیں البتہ دہشت گردی کے مقدمات میں وہ ضمانت پر ہیں۔
بلوچستان میں تحریک انصاف صوبائی اسمبلی سے ایک بھی نشست نہیں جیت سکی۔ اسی طرح سندھ بھی بھی کوئی ایسا اشتہاری قرار دیا گیا رہنما نہیں ہے جو انتخاب جیتا ہو۔
قانونی ماہرین کے مطابق ایسے تمام نومنتخب اراکین جو اشتہاری ہیں، انہیں اسمبلی کے رکن کا حلف اٹھانے سے قبل پولیس کے سامنے سرنڈر کرنا ہو گا ورنہ وہ اسمبلیوں کے پہلے اجلاس میں شرکت نہیں کر سکتے۔ پولیس کے سامنے سرنڈر کرنے کے بعد وہ عدالتوں کے ذریعے ضمانتیں لیں گے۔

شیئر: