Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وفاق میں حکومت سازی، ن لیگ میں دو آرا سامنے آگئیں؟

مولانا فضل الرحمان کے اپوزیشن میں بیٹھنے کے اعلان کے بعد سیاسی صورت حال یکسر بدل چکی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان میں عام انتخابات کے بعد مرکز میں حکومت کون بنائے گا اس بات پر ایک مرتبہ پھر تنازع سر اٹھا رہا ہے۔ اس سے پہلے تحریک انصاف نے دعویٰ کیا تھا کہ اس کے حمایتی اراکین کی تعداد اسمبلی زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ حکومت بنائیں گے تاہم دوسری طرف دوسرے نمبر پر آنے والی جماعت نے ان کو حکومت بنانے کی دعوت دینے کے ساتھ وزارت عظمیٰ کے لیے اپنے امیدوار شہباز شریف کا اعلان کر دیا تھا جنہیں پیپلزپارٹی کی حمایت حاصل ہے۔
ادھر مولانا فضل الرحمان کی جانب سے اپوزیشن میں بیٹھنے کے اعلان کے بعد پاکستان کی سیاسی صورت حال یکسر بدل چکی ہے۔
جمعے کی شب پاکستان کے مقامی میڈیا میں ایسی خبریں گردش کر رہی ہیں کہ نواز شریف مسلم لیگ ن کی مرکز میں حکومت کے حق میں نہیں۔ اس بات کی جانچ کے لیے اردو نیوز نے مسلم لیگ ن کے کئی رہنماؤں سے بات کرنے کی کوشش کی تاہم کوئی رہنما اس موضوع پر آن دی ریکارڈ بات کرنے کو تیار نہیں۔
ان خبروں کے بعد ایسی مستند معلومات دستیاب ہیں کہ مسلم لیگ ن کے اندر وفاق میں حکومت سازی کے حوالے سے تحفظات موجود ہیں۔ مسلم لیگ ن کے ایک اہم رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’نواز شریف نے واضح طور پر بتا دیا ہے کہ وہ مرکز میں حکومت لینے کے حق میں نہیں۔‘ 
انہوں نے بتایا کہ ’وہ چاہتے ہیں کہ ن لیگ پنجاب میں حکومت تو کرے البتہ وفاق کی ذمہ داری اپنے سر نہ لے۔ جس پر اکثریتی ن لیگی رہنما متفق ہیں۔‘
اس حوالے سے ن لیگ کے رہنما جاوید لطیف سے جب رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’میں جمعرات کو جاتی امرا ہونے والے اجلاس میں موجود تھا لیکن وہاں جو باتیں ہوئیں وہ ابھی میڈیا کے سامنے نہیں لائی جا سکتیں۔‘
اس اجلاس سے متعلق حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق پارٹی اکثریت وفاقی حکومت لینے موڈ میں نظر نہیں آئی۔ اس حوالے سے مذکورہ لیگی رہنما نے بتایا کہ ’نواز شریف حکومت نہ لینے کے حق میں ہیں انہوں نے برملا اس میٹنگ میں کہا کہ وہ ان رہنماؤں کے ساتھ متفق ہیں جو حکومت نہ لینے کے حق میں ہیں۔‘
انہوں نے مزید تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ’میاں صاحب نے یہ آپشن بھی رکھا کہ اگر پیپلز پارٹی حکومت لینا چاہتی ہے تو انہیں دے دی جائے۔ نواز شریف کی معروضات پاکستان کے مقتدر حلقوں تک پہنچا دی گئی ہیں لیکن ابھی تک کسی بات کا حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔ لیکن یہ بات واضح ہے کہ نواز شریف حکومت نہ لینے کے حق میں ہیں تاہم شہباز شریف کیا خیال ہے کہ دوسری کوئی آپشن موجود نہیں۔‘

اجلاس میں شامل قائدین کی اکثریت وفاقی حکومت لینے موڈ میں نظر نہیں آئی (فائل فوٹو: سکرین گریب)

پاکستانی سیاست اس وقت کس ڈگر پر جا رہی ہے اگر اس کا مزید احاطہ کیا جائے تو جمعے کو مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان وفود کی سطح پر حکومتی معاملات چلانے کے لیے ملاقات ہونا تھی جو علی الصبح منسوخ کر دی گئی۔
اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے رہنما ندیم افضل چن جو خود اس کمیٹی کا حصہ ہیں، کا کہنا ہے کہ ’ن لیگ کی طرف سے جمعے کا اجلاس ملتوی کیا گیا کیونکہ ہمیں بتایا گیا کہ لیگی وفد نے اپنی سفارشات ابھی تک قیادت کے سامنے نہیں رکھیں اس لیے انہیں مزید وقت درکار ہے۔‘
لیگی رہنما کا البتہ کہنا ہے کہ ’مسلم لیگ ن اس وقت بالکل بھی حکومت لینے کے موڈ میں نہیں اور یہ بات مقتدرہ کو بتا دی گئی ہے۔‘
’اگلے چند دنوں میں اس بات کو آفیشل طور پر بتا دیا جائے گا۔ یا تو کوئی ٹیکنوکریٹ ٹائپ کا وزیراعظم آئے گا۔ اگر مسلم لیگ ن کو مجبور کر کے حکومت دی جاتی ہے تو اس بات کے بھی امکان موجود ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو زبردستی کی حکومت ہو گی جس کو پارٹی کے اندر سے بھی پوری حمایت حاصل نہیں ہو گی۔‘

شیئر: