Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شکست تسلیم کرتے ہوئے دھاندلی کی گواہی دینے والے امیدوار کون ہیں؟

حافظ نعیم الرحمان نے کہا تھا کہ ’اتنا ظرف رکھتا ہوں کہ اپنی شکست کو تسلیم کروں۔‘ (فوٹو: روئٹرز)
پاکستان میں آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات میں اگرچہ ایک جانب دھاندلی کا شور برپا ہے اور کم و بیش تمام سیاسی جماعتیں ہی اپنے خلاف دھاندلی کا رونا رو رہی ہیں۔
ایسے میں کچھ امیدوار ایسے بھی ہیں جنھوں نے اپنی شکست کو تسلیم کیا اور جیتنے والے امیدوار کے حق میں گواہی بھی دی اور بتا دیا کہ جس کو جتوایا جا رہا ہے اسے حقیقت میں شکست ہوئی تھی۔
یہ گواہی دینے والوں میں جماعت اسلامی، مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور آزاد امیدوار بھی شامل ہیں۔
جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے پریس کانفرنس کرکے اپنی جیتی ہوئی نشست تحریک انصاف کے امیدوار کے لیے خالی کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’فارم 45 کے تحت آزاد امیدوار جیتے ہیں اتنا ظرف رکھتا ہوں کہ اپنی شکست کو تسلیم کروں۔ ہمیں ہماری حقیقی طور پر جیتی ہوئی نشستیں واپس کی جائیں۔‘
ان کے اس اعلان کا سامنے آنا تھا کہ میڈیا اور سوشل میڈیا پر ان کو سراہا جانے لگا۔ لوگوں کی بڑی تعداد نے حافظ نعیم الرحمان کو ایک مثال بنا کر دوسری سیاسی جماعتوں کے قائدین سے بھی اپنی شکست تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا۔
اس کے ساتھ ہی جماعت اسلامی کی طرف سے تحریک انصاف کو تمام حلقوں میں فارم 45 فراہم کرنے کا اعلان بھی سامنے آیا۔
جماعت اسلامی لاہور کی جانب سے یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ لاہور کے حلقہ این اے 130 سے مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کو بھی یاسمین راشد کے مقابلے شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس حلقہ کے تمام فارم 45 بھی موجود ہیں۔
حافظ نعیم الرحمان سے پہلے گجرات کے حلقہ این اے 63 سے مسلم لیگ ن کے امیدوار اور بزرگ سیاست دان نواب زادہ غضنفر گل نے بھی پریس کانفرنس کی اور کہا کہ ’انتخابات میں جیتا ہوں یا نہیں لیکن جس کو جتوایا گیا ہے وہ تیسرے نمبر پر تھا۔‘

مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ حلقہ این اے 47 اور 48 سے جن کو جتوایا گیا ہے ان کا حق نہیں بنتا۔ (فائل فوٹو)

این اے 63 سے مسلم لیگ ق کے حسین الہٰی کو کامیاب امیدوار قرار دیا گیا تھا جبکہ نواب زادہ غضنفر گل کے مطابق آٹھ فروری کو مقابلہ ان کے اور آزاد امیدوار ساجد یوسف کے درمیان تھا۔ ساجد یوسف آگے تھے جبکہ دوسرے نمبر پر نواب زادہ غضنفر گل تھے لیکن فارم 47 میں حسین الٰہی کو کامیاب قرار دیا گیا۔
گجرات ہی کے حلقہ این اے 65 سے مسلم لیگ ن کے امیدوار نصیر احمد سدھ کو کامیاب قرار دیا گیا ہے لیکن اس حلقہ سے پیپلز پارٹی کے قمر زمان کائرہ نے مقامی صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ مانتے ہیں کہ انتخابات میں انھیں شکست ہوئی ہے لیکن لوگوں نے مینڈیٹ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ سید وجاہت حسنین شاہ کو دیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ہمارے پاس بھی فارم 45 موجود ہیں جس کے مطابق آزاد امیدوار کامیاب ہوئے ہیں لیکن دھاندلی کے ذریعے ن لیگ کے امیدوار کو کامیاب قرار دیا گیا ہے۔
اس حلقے میں تحریک انصاف کے آزاد امیدوار کا دعویٰ ہے کہ فارم 45 کے مطابق انھیں ایک لاکھ 28 ہزار، قمر زمان کائرہ کو 53 ہزار جبکہ مسلم لیگ ن کے امیدوار کو 38 ہزار ووٹ ملے ہیں جبکہ فارم 47 میں تیسرے نمبر پر آنے والے امیدوار کو فاتح قرار دیا گیا ہے۔
اسی طرح کی گواہی اسلام آباد کے دو حلقوں سے انتخاب لڑنے والے آزاد امیدوار مصطفیٰ نواز کھوکھر نے بھی دی اور  کہا کہ اسلام آباد کے حلقہ این اے 47 اور 48 سے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار جیتے ہیں جبکہ جن کو جتوایا گیا ہے ان کا حق نہیں بنتا۔

ثمر ہارون بلور اپنے مخالف امیدوار کو مبارکباد دینے گئی تھیں۔ (فوٹو: فیس بک) 

ان امیدواروں کے علاوہ کچھ امیدوار ایسے بھی ہیں جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اگر وہ تھوڑا انتظار کر لیتے تو امکان تھا کہ حتمی نتیجہ ان کے حق میں آتا لیکن انھوں نے عوامی مینڈیٹ کا احترام کیا۔
ان میں لاہور سے مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما خواجہ سعد رفیق، سرگودھا سے محسن شاہ نواز رانجھا، مردان سے اے این پی کے امیر حیدر ہوتی، پشاور سے اے این پی کے غلام احمد بلور اور ثمر بلور اور دیگر شامل ہیں۔
حیدر ہوتی نے کہا تھا کہ ’میرے حلقے اور مردان کے عوام نے اگر ہم پر اعتماد نہیں کیا تو اس شکست کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے پارٹی کے مرکزی سینیئر نائب صدر کے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کرتا ہوں۔‘
ان امیدواروں نے اپنے مخالف جیتنے والے امیدواروں کو باضابطہ مبارکباد بھی پیش کی۔

شیئر: