مسلسل تسیری بار سندھ کی وزارتِ اعلی کے امیدوار مراد علی شاہ کون ہیں؟
مسلسل تسیری بار سندھ کی وزارتِ اعلی کے امیدوار مراد علی شاہ کون ہیں؟
جمعہ 23 فروری 2024 15:14
مردا علی شاہ نے کنیڈین شہریت چھوڑ کر 2014 کے ضمنی انتخابات میں حصہ لیا: فوٹو فیس بک
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سید مراد علی شاہ کو صوبہ سندھ کے وزیر اعلیٰ کے لیے نامزد کر دیا ہے۔
سید مراد علی شاہ کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے اور وہ اس سے پہلے مسلسل دو بار صوبہ سندھ کے وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔
اس سے قبل سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کے دور میں وہ صوبائی وزیر خزانہ کے طور پر بھی خدمت سر انجام دے چکے ہیں۔
سید مراد علی شاہ کا تعلق سندھ کے ایک سیاسی گھرانے سے ہے، انہیں یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے پاکستان کے ایک صوبے میں وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے سب سے زیادہ وقت گزارا ہے۔
سید مراد علی شاہ سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید عبداللہ شاہ کے بیٹے ہیں۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم کراچی سے حاصل کی۔
سید مراد علی شاہ نے میٹرک سینٹ پیٹرک سکول سے کیا، انٹر ڈی جے سائنس کالج سے کرنے کے بعد این ای ڈی یونیورسٹی سے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔
بعدازاں وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سکالر شپ پر امریکہ گئے جہاں سے انہوں نے دو مختلف شعبوں میں ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کی۔
وطن واپسی پر پہلے سندھ اور پھر پنجاب میں واپڈا میں کام کیا۔ سید مراد علی شاہ نے پورٹ قاسم اتھارٹی اور حیدر آباد ڈیولپمنٹ اتھارٹی سمیت سٹی بینک میں بھی ملازمت کی۔
مراد علی شاہ نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز سال 2002 میں کیا۔
وہ سندھ کے علاقے سیہون کی نشست پی ایس 77 دادو تھری سے منتخب ہوئے۔ سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کے دور میں انہیں آبپاشی کی وزارت کی ذمہ داری گئی بعد ازاں ان کی قابلیت کو دیکھتے ہوئے سندھ کا وزیر خزانہ بنایا گیا۔
سال 2013 میں دوہری شہریت رکھنے کی وجہ سے انہیں نااہلی کا سامنا کرنا پڑا تھا تاہم بعد ازاں انہوں نے اپنی کنیڈین شہریت چھوڑ کر 2014 کے ضمنی انتخابات میں حصہ لیا۔
سید مراد علی شاہ کے علاقے کی کیا صورتحال ہے؟
سید مراد علی شاہ کا آبائی علاقہ ضلع جامشورہ کا قصبہ سیہون ہے۔ سیہون سندھ کا ایک مشہور علاقہ ہے جہاں لال شہباز قلندر کا مزار موجود ہے۔
دو بڑی ہائی ویز سے جڑے اس علاقے کے حالات سندھ کے دیگر علاقوں سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ یہاں لال اینٹوں کے کچے پکے مکانات ہیں۔ اور بیشر افراد روزگار کے حصول کے لیے سندھ کے دوسرے شہروں کا رخ کرتے ہیں یا دوسرے شہروں میں آباد ہیں۔
اس علاقے میں زمین زرخیز بھی ہے اور پتھریلی بھی ہے۔ یہاں کاشتکاری کرنے والے کسان سندھ کے سابق وزیراعلی سے نالاں نظر آتے ہیں۔
ضلع جامشورو سے تعلق رکھنے والے ہاری امتیاز سموں کا کہنا ہے کہ سندھ کے وزیر اعلیٰ کا علاقہ آج بھی صوبے کے سربراہ کی توجہ کا منتظر ہے۔
’یہاں سیلاب نے جو تباہ کاری کی ہے اس کا ازالہ نہیں ہوسکا ہے۔‘
امتیاز سموں نے کہا کہ سب نے یہاں آکر بہت اعتماد دلایا کہ نقصان پورا کریں گے، پھر سے آباد کاری کریں گے لیکن صورتحال یہ ہے کہ سیلاب کو گزرے دو سال ہونے کو آرہے ہیں اور ہم اب بھی مقروض ہیں۔
’قرض لیکر فصل کے بیچ ڈال رہے ہیں جو آمدنی آتی ہے وہ آدھی قرض میں جاتی ہے باقی دوسری فصل کے لیے رکھ رہے ہیں۔ ہمیں تو محنت کرکے بھی کچھ فائدہ نہیں پہنچ رہا ہے۔‘
سیہون شہر کے رہائشی ظفر شاہ کا کہنا ہے کہ سندھ کا شہر اپنے دو بار کے وزیر اعلیٰ کی طرف دیکھ رہا ہے۔ ’یہاں وہ کام نہیں ہوسکا جس کی یہاں کے رہنے والوں کو امید تھی، تعلیم اور صحت کے شعبوں کا برا حال ہے۔ جب اعلیٰ افسران کے دورے ہوتے ہیں تو ہر چیز مصنوعی طور پر سجا سجا کر دکھائی جاتی ہے بعد میں عوام کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔‘
’سیہون کے ہسپتال میں کبھی ڈاکٹر ہوتے ہیں کبھی نہیں ہوتے، ادویات باہر سے لانے کو کہتے ہیں اب یہاں رہنے والوں کا حال تو پہلے ہی معاشی طور پر اچھا نہیں ہے ایسے میں یہ سب برداشت کرنا پڑتا ہے۔ کچھ کہو تو اس کے نتائج کون بھگتے گا؟‘
احمد علی بھی سیہون کے رہائشی ہے وہ سید مراد علی شاہ کی کارکردگی کو مثالی قرار دیتے ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ مراد علی شاہ کے دور میں یہاں بہت سے ترقیاتی کام ہوئے ہیں، بچوں کے لیے تعلیم کا نظام بہتر ہوا ہے، اس کے علاوہ نوجوانوں کے روزگار کے لیے مراد علی شاہ نے بہت کام کیا ہے اور علاقے کے کئی بے روزگار تعلیم یافتہ نوجوان اب سرکاری نوکری پر تعینات ہیں۔