Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا پیپلز پارٹی اور ن لیگ کا حکومتی اتحاد چل پائے گا؟ عامر خاکوانی کا کالم

نواز شریف نہ صرف چوتھی بار وزیراعظم نہیں بن سکے بلکہ وہ مانسہرہ سے الیکشن ہار گئے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کا حکومتی اتحاد تو آخر کار بن گیا۔ بلاول بھٹو چاہتے تھے کہ حکومت میں شامل ہوئے بغیر جتنے مفادات سمیٹے جا سکتے ہیں، وہ لے لیں اور حکومت کی کارکردگی، گورننس یا مہنگائی وغیرہ کا بوجھ نہ اٹھانا پڑے۔
یہ منصوبہ تو ناکام ہوگیا یا کہہ لیں بنا دیا گیا۔ وہی جو ن لیگ کو حکومت دلانا چاہ رہے تھے، انہوں نے پیپلز پارٹی کو حکومت میں پارٹنر بنوا دیا۔ اب پی پی بے شک مرکز یا پنجاب میں وزارتیں لے یا نہ لے، اس کا تاثر ایک حکومتی پارٹنر کا ہی بنے گا۔ 20 فروری کو رات گئے جب اس حوالے سے پریس کانفرنس ہوئی تو اس میں بلاول بھٹو کے چہرے پر موجود کبیدگی اور ناخوشی صاف نظر آ رہی تھی۔
ملین ڈالر سوال یہی ہے کہ کیا یہ اتحاد چل پائے گا؟ حتمی جواب دینا تو سردست مشکل ہے، مگر بظاہر تو ایسا لگ رہا ہے کہ جو معاشی حالات ہیں، اس میں جلد کسی نئے الیکشن کا ایڈونچر نہیں لیا جا سکتا۔
آئی ایم ایف سے نئے معاہدے کے لیے فوری جانا پڑے گا، سیاسی عدم استحکام رہا تو معاہدے میں رکاوٹیں رہیں گی۔ اس لیے کم از کم اگلے ڈیڑھ دو برس کے لیے تو یہی سب ایسے ہی چلتا رہے گا۔
حکومتی اتحاد یا اس پورے سیٹ اپ کے چلتے رہنے کے لیے ضروری ہے کہ دیکھا جائے ہر ایک کو کیا ملا ہے؟ اسی پران کا اگلا لائحہ عمل طے ہو گا۔ اطمینان کی کیفیت ہے تو سب چلتا رہے گا، ناآسودگی اور بے اطمینانی ہے تو پھر اکھاڑ پچھاڑ کی کوشش شروع۔
مسلم لیگ ن کا ٹارگٹ مرکز کی حکومت اور پنجاب میں صوبائی حکومت تھی۔ یہ دونوں مقاصد تو سردست حاصل ہو گئے ہیں۔ شہباز شریف وزیراعظم اور مریم نواز شریف پنجاب کی پہلی خاتون وزیراعلٰی بننے جا رہی ہیں۔ قومی اسمبلی کا سپیکر بھی ان کی پارٹی کا ہو گا، جبکہ بلوچستان میں مخلوط حکومت میں اچھا خاصا حصہ بھی ملے گا۔

مریم نواز شریف پنجاب کی پہلی خاتون وزیراعلٰی بننے جا رہی ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

نقصان البتہ میاں نواز شریف کا ہوا۔ وہ وزیراعظم نہیں بن سکے، جس کے لیے وہ لندن سے خاص طور سے تشریف لائے تھے۔ اخبارات میں وزیراعظم نواز شریف کے بڑے بڑے اشتہار چھپوائے گئے تھے، وہ سب کوشش بیکار گئی۔ میاں نواز شریف نہ صرف چوتھی بار وزیراعظم نہیں بن سکے بلکہ وہ مانسہرہ سے الیکشن ہار گئے اور لاہور کی ان کی جیت بھی متنازع ہو چکی۔ مولانا فضل الرحمن تک نے بھی ٹی وی انٹرویو میں کہہ دیا کہ سنا ہے نواز شریف لاہور سے ہار گئے تھے۔
ایسی نفسیاتی شکست نواز شریف کو پہلی بار ہوئی۔ وہ بھرپور لیول پلینگ فیلڈ ملنے اور اپنی مخالف جماعت کے ہاتھ پیر باندھ دیے جانے کے باوجود اسے شکست نہ دے سکے بلکہ پنجاب میں اپنے اہم اور مضبوط علاقوں (لاہور، گوجرانوالہ، شیخوپورہ، فیصل آباد وغیرہ) میں بڑے ڈینٹ ڈلوا بیٹھے۔ میاں نواز شریف کو بڑا دھچکا لگا ہے۔ وہ الیکشن کے بعد سے سامنے نہیں آ رہے، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔
مریم نواز شریف کا وزیراعلٰی بننا البتہ میاں نواز شریف کے لیے نفسیاتی تسکین اور خوشی کا باعث بنا ہو گا۔ وہ اپنی سیاسی میراث کو اپنی صاحبزادی تک منتقل کر دینا چاہتے تھے۔ پنجاب کا وزیراعلٰی بننا اس حوالے سے بڑا اہم قدم اور سنگ میل ہے۔ مریم نواز شریف کا وزیراعلٰی پنجاب بننا ان کے لیے مستقبل کی سیاست کے کئی نئے در کھول دے گا۔ میاں نواز شریف کی کوشش ہو گی کہ مریم نواز کو پنجاب میں زیادہ سے زیادہ وقت مل سکے اور یہ سیٹ اپ چلتا رہے۔

پیپلز پارٹی کی بڑی کامیابی آصف زرداری کو اگلے پانچ برسوں کے لیے صدر مملکت بنوانا ہو گا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

پاکستان پیپلز پارٹی کی اصل قوت سندھ ہے۔ اس الیکشن میں وہ سندھ میں زیادہ طاقتور ہے۔ اکثریت اس قدر ہے کہ ایم کیو ایم کو رسمی طور پر بھی شامل کرنے کی ضرورت نہیں۔ پیپلز پارٹی کی بڑی کامیابی آصف زرداری کو اگلے پانچ برسوں کے لیے صدر مملکت بنوانا ہو گا۔ بظاہر جس کی راہ میں کوئی رکاوٹ نظر نہیں آتی۔ الیکشن سے پہلے آصف زرداری بلوچستان میں اپنی حکومت بنانے کے دعوے کر رہے تھے، نواز شریف صاحب کی واپسی پر یوں لگا کہ پی پی بلوچستان سے آﺅٹ ہو گئی۔ الیکشن سے کچھ عرصہ قبل پیپلز پارٹی نے بلوچستان میں واپسی کی اور اب الیکشن نتائج کے مطابق وہ صوبے کی سب سے بڑی جماعت ہے۔ وزیراعلٰی بھی ان کا ہی بنے گا۔
اتحاد کے فیصلے کے مطابق چیئرمین سینٹ کا عہدہ بھی پیپلز پارٹی کو ملے گا۔ وہ پنجاب میں خاصے عرصے کے بعد اپنا گورنر بھی بنائے گی۔ اس اعتبار سے پی پی کے لیے ’پانچوں گھی میں، سر کڑاہی میں‘ والا محاورہ درست لگ رہا ہے۔ البتہ اس نے مرکز اور پنجاب میں وزارتیں نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ممکن ہے کچھ عرصے کے بعد وہ اس پر نظرثانی کرے مگر سردست پیپلز پارٹی زیادہ بوجھ اٹھانے کی خواہاں نہیں۔
بظاہر تو ایسا لگ رہا ہے کہ پیپلز پارٹی اسی سسٹم کو آگے چلاتے رکھنا چاہے گی۔ انہیں معلوم کہ جلد نئے الیکشن کا مطلب تحریک انصاف کو بڑی اکثریت سے کامیابی دلوانا ہے۔ جس کے بعد پی پی پی کے لیے صرف سندھ ہی بچے گا۔ وہ اپنا بڑا حصہ چھوڑ کر صرف ایک صوبے تک کیوں محدود رہنا چاہے گی؟

الیکشن میں خیبر پختونخوا سے جے یو آئی کا صفایا ہو گیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

جے یو آئی سردست سب سے شکست خوردہ لگ رہی ہے۔ مولانا فضل الرحمان پی ڈی ایم کے سربراہ تھے، وہ اپنے لیے مستقبل کے سیٹ اپ میں بڑا رول دیکھ رہے تھے۔ ان کی نگاہیں صدر پاکستان کے عہدے پر تھیں۔ وہ خیبر پختونخوا کی وزارت اعلٰی کے امیدوار بھی تھے اور بلوچستان میں بھی مرکزی کردار لینا چاہتے تھے۔ الیکشن میں خیبر پختونخوا سے جے یو آئی کا صفایا ہو گیا۔ مولانا بمع اپنے بیٹوں کے ڈیرہ، ٹانک، لکی مروت سے ہار گئے۔ جے یو آئی کی خیبر پختونخوا میں کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی۔ اگر ن لیگ اور پی پی نہ چاہیں تو جے یو آئی صوبے میں اپوزیشن لیڈر کا عہدہ بھی نہیں لے سکتی۔
بلوچستان میں اچھی کارکردگی کے باوجود وہ وزارت اعلٰی کی دوڑ سے آﺅٹ ہیں۔ وہاں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے اکٹھے ہونے پر کسی اور کی خاص ضرورت ہی نہیں۔ مرکز میں جے یو آئی کے پاس بمشکل چار پانچ نشستیں ہیں، ق لیگ سے قدرے زیادہ۔ ن لیگ جے یو آئی کو اقتدار میں شریک کرنا چاہے گی، مگر ان کا حصہ کم ہی ہو گا۔
یہ مولانا فضل الرحمان پر ہے کہ وہ اقتدارمیں کیک کا معمولی سا ٹکڑا لینا قبول کریں گے یا پھر باہر رہ کر خود کو اپوزیشن لیڈر کے طور پر منواتے ہیں؟ جے یو آئی بہرحال اس سیٹ اپ کے زیادہ عرصہ چلنے کے حق میں نہیں ہو گی کہ انہیں اگلے انتخابات میں کچھ بہتر مل جانے کی امید ہو سکتی ہے۔

الیکشن کمیشن کے مطابق تحریک انصاف مرکز اور پنجاب میں اپوزیشن کا کردار ہی ادا کر سکتی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ایم کیو ایم، ق لیگ اور استحکام پاکستان، یہ تینوں چھوٹی پارٹیاں بھی حکومتی اتحاد کا حصہ ہیں۔ ان تینوں کو اپنی توقعات سے زیادہ ہی ملا ہے۔ ان کی تو شدید خواہش ہو گی کہ یہی سیٹ اپ تا دیر چلتا رہے تاکہ ان کی وزارتیں اور معاملات اچھے رہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کو انتخابات میں خاصا کچھ ملا ہے، مگر بہت کچھ ملتے ملتے رہ گیا۔ وہ مرکز اور پنجاب میں بہت زیادہ نشستیں جیتنے کی دعوے دار ہے۔ جو نتائج الیکشن کمیشن نے جاری کیے، ان کے مطابق تحریک انصاف مرکز اور پنجاب میں اپوزیشن کا کردار ہی ادا کر سکتی ہے۔ خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت ضرور انہیں مل گئی۔
تحریک انصاف کی کامیابی یہ ہے کہ عمران خان کو ملک کا مقبول ترین لیڈر تسلیم کر لیا گیا۔ اس کے بھرپور عوامی مینڈیٹ کو بھی اچھی طرح سمجھا اور تسلیم کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خیبر پختونخوا میں ان کے نامزد وزیراعلٰی کو روکنے کی کوئی کوشش نظر نہیں آ رہی۔ حکومتی اتحاد اور اسٹیبلشمنٹ کی یہی خواہش ہو گی کہ تحریک انصاف سڑکوں پر احتجاج کرنے کے بجائے اسمبلیوں کا رخ کرے اور وہاں فعال کردار نبھائے۔
ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کو یہ باور کرایا گیا ہے کہ وہ اگر قانونی طریقے سے اپنے نمبرز پورے کر سکی تو وہ کسی مناسب وقت پر تحریک عدم اعتماد بھی لا سکتی ہے۔ ظاہر ہے یہ مناسب وقت ابھی ڈیڑھ دو برس تک نہیں ہو گا۔ عمران خان اس دوران اپنی قانونی جنگ آزادانہ لڑ سکتے ہیں، اپنے ساتھ وہ دیگر پارٹی لیڈروں اور کارکنوں کو رہا کرا کر ازسر نو پارٹی منظم کر سکتے ہیں۔

تحریک انصاف کی کامیابی یہ ہے کہ عمران خان کو ملک کا مقبول ترین لیڈر تسلیم کر لیا گیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

دیکھنا یہ ہو گا کہ اپوزیشن سیاست میں عمران خان سولو فلائیٹ کرتے ہیں یا کوئی اتحاد بناتے ہیں؟ وہ جماعت اسلامی کو ساتھ ملا سکتے ہیں جو احتجاجی سیاست کرنے کے موڈ میں ہے۔
سندھ میں جی ڈی اے بھی تحریک انصاف کی فطری اتحادی ہے۔ جے یو آئی اگر حکومتی اتحاد کا حصہ نہ بنی اور اسے اپوزیشن میں رہنا پڑا تو ممکن ہے جے یو آئی اور تحریک انصاف کچھ قریب آ جائیں۔ تحریک انصاف کے لیے بلوچستان میں بلوچ اور پشتون قوم پرست جماعتوں کو ساتھ ملانے کی آپشن بھی ہے۔
بلوچستان میں چیزیں خاصی پیچیدہ ہوئی ہیں۔
وہاں بلوچ اور پشتون قوم پرست جماعتیں عملی طور پر صوبے کی سیاست سے آﺅٹ ہو گئی ہیں۔ ان کا حصہ اتنا معمولی ہے کہ ہونا نہ ہونا ایک برابر۔ بی این پی مینگل، ڈاکٹر مالک بلوچ کی نیشنل پارٹی، محمود اچکزئی کی پختون خوا ملی عوامی پارٹی، یہ سب آوٹ ہو گئے ہیں۔ صوبائی اسمبلی میں پیپلز پارٹی، ن لیگ اور جے یو آئی کاغلبہ ہے۔ ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی بھی اس بار اوٹ ہو گئی۔ جماعت اسلامی کی خاصے عرصے بعد انٹری ہوئی ہے، جعفرآباد سے انہیں ایک صوبائی اسمبلی کی سیٹ ملی۔
بلوچستان میں پختون، بلوچ قوم پرست احتجاج کے لیے پر تول رہے ہیں۔ انتخابی نتائج سے انہیں شدید مایوسی کا سامنا ہے۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے لانگ مارچ کی وجہ سے ان کا روایتی قوم پرست ووٹ بینک اس جانب مائل ہو گیا تو دوسری طرف پارلیمانی سیاست کر کے بھی ان کے کچھ ہاتھ نہیں آیا۔

بلوچستان میں پختون، بلوچ قوم پرست احتجاج کے لیے پر تول رہے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

محمود اچکزئی کی احتجاجی تقریریں اس قدر سخت ہیں کہ میڈیا تو درکنار، سوشل میڈیا پر بھی دینا مشکل ہے۔ مولانا ہدایت الرحمن کی ’حق دو‘ پارٹی بھی احتجاج کر رہی ہے، مولانا کو صوبائی اسمبلی میں ایک سیٹ ملی، وہ بھی خطرے میں ہے۔ یوں بلوچستان میں لگتا ہے آنے والے دنوں میں احتجاج چلتا رہے گا۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی مخلوط حکومت وہاں آئے گی، مگر عملاً یہ باپ پارٹی کے پچھلے پانچ سالہ دور کی ایکسیٹنشن ہی ہو گی، ویسے الیکٹ ایبلز، وہی ملتے جلتے چہرے۔
مجموعی طور پر مجھے یہ سیٹ اپ اگلے ایک ڈیڑھ سال کے لیے تو خطرے سے خالی لگ رہا۔ آنے والے دنوں میں سب فوکس معیشت پر ہو گا۔ سیاسی احتجاج تھوڑا بہت چلتا رہے گا، مگر سسٹم کو نقصان پہنچائے بغیر۔

شیئر: