Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مہارانی جند کور سے مریم نواز تک: تختِ لاہور پر عورت راج

مریم نواز نے پارٹی میں وہ مقام بنا لیا کہ انہیں ’کراؤڈ پُلر‘ کے طور پر جانا جانے لگا (فوٹو: مریم نواز فیس بک پیج)
پاکستان کے صوبہ پنجاب کی حکمران اب ایک خاتون ہیں۔ مریم نواز کو یہ اعزاز حاصل ہو چکا ہے کہ وہ پاکستان کے کسی بھی صوبے کی پہلی خاتون وزیر اعلٰی منتخب ہو چکی ہیں۔
پنجاب کی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیں تو تختِ لاہور پر اس سے پہلے جس خاتون نے حکمرانی کی ان کا نام جند کور ہے جو مہاراجہ رنجیت سنگھ کی ملکہ تھیں۔

پنجاب کی خواتین حکمران:

مہارانی جند کور جنھیں مہارانی جنداں بھی کہا جاتا ہے، گوجرانوالہ میں پیدا ہوئیں۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد ستمبر 1843 میں جب ان کے بیٹے دلیپ سنگھ صرف پانچ برس کے تھے تو انہیں تخت لاہور کا وارث بنا دیا گیا۔
جند کور نے امورِ سلطنت سنبھال لیے اور انگریزوں کے مکمل قبضے مارچ 1849 تک وہ مہارانی رہیں۔ سکھوں کی تاریخی کتب میں ان سے پہلے مہارانی چند کور کا ذکر ملتا ہے جو نومبر 1840 سے جنوری 1841 تک صرف 73 دنوں کے لیے حاکم بنیں۔ انہیں سکھ بادشاہت کی پہلی خود مختار مہارانی ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
مہارانی چند کور کھڑک سنگھ کی اہلیہ تھیں۔ ان کے بیٹے اور پنجاب کے راجہ نونہال سنگھ جب قاتلانہ حملے میں جانبر نہ سکے تو لاہور کے شاہی قلعے میں ان کی تاج پوشی کی رسم ادا ہوئی۔
بعد ازاں ایک اور سکھ حاکم شیر سنگھ نے انہیں اقتدارسے بغاوت کے بعد گرفتار کر لیا۔ شیر سنگھ خود بھی قتل ہو گئے تو مہارانی جند کور اور پانچ سالہ دلیپ سنگھ کے ذریعے سکھ بادشاہت کے آخری حکمراں ماں بیٹے کا دور شروع ہوا۔
انگریز دور کے بعد جب 1947 میں بٹوارا ہوا تو پنجاب بھی دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ اس کے بعد انڈین پنجاب میں پہلی بار خاتون حکمران رجندر کور بھٹل نومبر 1996 میں وزیراعلٰی منتخب ہوئیں تاہم ان کے اقتدار کا دور محض چار مہینوں پر محیط تھا۔
فروری 1997 میں ان کی جماعت کانگریس صوبائی انتخابات ہار گئی تو ان کی حکومت بھی ختم ہو گئی۔

مریم نواز تخت لاہور پر:

پاکستان مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز کو ملکی سیاست میں آئے ابھی چند سال ہی ہوئے ہیں۔ گزشتہ برسوں کی سیاست میں جاری ہنگامہ خیزی نے حالات ان کے لیے ایسے موافق کیے کہ اب وہ پنجاب کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ بن چکی ہیں۔
ماضی کی پنجاب کی حکمراں خواتین کو جیسے سخت ترین حالات ملے سیاسی مبصرین کے مطابق مریم نواز کو بھی ایسے ہی چیلنجز درپیش ہوں گے۔ انہیں پنجاب میں اپنی پارٹی کی گرتی ہوئی ساکھ بھی بچانی ہے اور یہ بھی ثابت کرنا ہے کہ وہ اس عہدے کی حق دار تھیں۔
نومبر 2016 میں جب ترکی کے صدر رجب طیب اردوگان پاکستان کے دورے پر تھے تو اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے انہیں لاہور آنے کی دعوت دی اور شاہی قلعے کے سامنے حضوری باغ میں ان کے لیے عشائیے کا اہتمام کیا گیا۔
اس عشائیے میں نواز شریف اور طیب اردگان کے درمیان غیر رسمی گفتگو کیمرے پر ریکارڈ ہو گئی جس میں نواز شریف کو یہ کہتے سُنا گیا کہ ان کے بیٹوں کو سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں ہے البتہ بیٹی مریم نواز سیاست میں آنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
یہ پہلی مرتبہ تھا جب مستقبل کے سیاسی منظر نامے میں مریم نواز کی انٹری ہوئی۔ اس سے پہلے وہ مسلم لیگ ن کی ساری لیڈرشپ میں سب سے زیادہ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر سرگرم تھیں۔

نواز شریف کو نااہل کیے جانے اور اس کے بعد ان پر چلائے جانے والے مقدمات میں مریم نواز کو بھی شامل کر لیا گیا (فوٹو: اے ایف پی)

مزاحمت کی علامت:

عمران خان کے 2014 کے لانگ مارچ اور دھرنے کے خلاف مریم نواز نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) کا محاذ سنبھالا اور مخالفین کو بھرپور جواب دیا۔ جب پانامہ کیس آیا تو وہ اپنی پارٹی اور خاندان کا دفاع کرتی نظر آئیں۔
سپریم کورٹ کی جانب سے نواز شریف کو نااہل کیے جانے اور اس کے بعد ان پر چلائے جانے والے مقدمات میں مریم نواز کو بھی شامل کر لیا گیا۔
نواز شریف کی نااہلی کے بعد اس نشست پر کلثوم نوازکو جب اُمیدوار نامزد کیا گیا تو ان کی الیکشن مہم مریم نواز نے جس انداز سے چلائی اور وہ انتخاب جیتا تو یہ بات زبان زدِ عام ہو چکی تھی کہ مسلم لیگ ن کو مریم کی صورت میں ایک نیا چہرہ مل گیا ہے۔
ایون فیلڈ کیس میں 2018 کے انتخابات سے پہلے نواز شریف کے ساتھ ساتھ انہیں بھی سات سال قید کی سزا سنائی گئی۔ الیکشن سے بارہ دن قبل وہ اپنے والد کے ساتھ لاہور ائیرپورٹ پر پہنچیں تو انہیں طیارے کے اندر سے ہی گرفتار کر لیا گیا۔
یوں مریم نواز کی عملی سیاست کا آغاز جیل یاترا سے ہوا۔ جیل سے پر رہائی کے بعد انہوں نے اپنے والد نواز شریف کا مقدمہ اپنے ہاتھ میں لیا اور مزاحمت کا استعارہ بن کر اُبھریں۔

مریم نواز کو بھی پنجاب میں اپنی جماعت کی ساکھ کی بحالی اور گورننس جیسے سخت ترین چیلنجز کا سامنا ہو گا (فوٹو: مریم نواز فیس بک پیج)

بہت جلد انہوں نے پارٹی میں اپنا وہ مقام بنا لیا جب انہیں ’کراؤڈ پُلر‘ کے طور پر جانا جانے لگا۔ انہیں دوسری مرتبہ کوٹ لکھپت جیل سے اُس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ نواز شریف سے ملاقات کرنے کے لیے پہنچی تھیں۔
دوسری گرفتاری کی وجہ اُن کے سخت بیانیے کو سمجھا جاتا رہا۔ نوازشریف کی چار سال بعد وطن واپسی اور پھر الیکشن مہم میں یہ بات واضع ہو چکی تھی کہ اب وہ مریم نواز کو ہی اپنا سیاسی جانشین بنانے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔
بٹوارے سے پہلے پنجاب کی دھرتی پر آنے والے دو خواتین حکمرانوں کے حصّے میں بھی مزاحمت ہی آئی۔ خاندان کے اندر اقتدار کی رسہ کشی اور انگریزوں کے بڑھتے اثر و رسوخ  دونوں ایسے عوامل تھے جنہوں نے چند کور اور جند کور کو اپنی گورننس کی صلاحیتوں کو منوانے کا موقع نہیں دیا۔
مریم نواز کو بھی پنجاب میں اپنی جماعت کی ساکھ کی بحالی اور گورننس جیسے سخت ترین چیلنجز کا سامنا ہو گا۔ اگلے کچھ وقت میں یہ واضع ہو گا کہ پنجاب کی نئی خاتون حکمران اپنی صلاحیتوں کو کیسے منواتی ہیں۔

شیئر: