پنجاب میں اکثریت حاصل کرنے والے جماعت مسلم لیگ ن نے صوبے کے لیے مریم نواز کو وزیراعلٰی کا اُمیدوار نامزد کر دیا ہے۔ ملکی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہو گا کسی صوبے کی حکمران ایک خاتون ہوں گی۔
اہم بات یہ ہے کہ مریم نواز پہلی مرتبہ ہی عملی سیاست میں آئی ہیں اور ممبر قومی، صوبائی اسمبلی منتخب ہوئی ہیں۔ اس سے پہلے انہیں حکمرانی کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ وزیر اعلٰی بننے کے بعد وہ اپنی قومی اسمبلی کی سیٹ چھوڑ دیں گی۔
مزید پڑھیں
-
وہ ’بچے‘ جو اپنے بڑوں کے سیاسی مستقبل کے فیصلے کرتے رہےNode ID: 836641
سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ مریم نواز کو ملک کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے میں حکمرانی سے زیادہ بڑا چیلنج اپنی پارٹی کی ساکھ کی بحالی ہو گا۔
خیال رہے کہ عام انتخابات 2024 میں مسلم لیگ ن کو پنجاب سے وہ حمایت نہیں ملی ہے جس کی توقع کی جا رہی تھی۔ سینٹرل پنجاب کے گوجرانوالہ اور فیصل آباد ڈویژنز سے ن لیگ کو اپ سیٹ شکست ہوئی ہے۔ رانا ثنااللہ اور خرم دستگیر جیسے ہیوی ویٹ اپنی سیٹیں ہار گئے ہیں۔
اسے سے پہلے پنجاب میں شہباز شریف سب سے متحرک اور ڈیلیور کرنے والے وزیر اعلی کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ یہ پہلا موقع ہو گا کہ شریف خاندان کا کوئی دوسرا فرد پانچ سال کے لیے صوبے کا وزیر اعلٰی منتخب ہو گا۔
حکومت میں یہ قرعہ حمزہ شہباز کے نام بہت مختصر وقت کے لیے نکلا تھا تاہم ضمنی انتخابات میں ن لیگ شکست سے وہ اس عہدے سے محروم ہو گئے۔

تو کیا مریم نواز ان توقعات پر پورا اُتریں گی جو ان کی پارٹی نے ان سے وابستہ کی ہیں؟ معروف تجزیہ کار سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ ’اس سوال کا جواب اتنا سادہ نہیں ہے۔ کیونکہ اس وقت سب سے بڑا چیلنج جو مریم نواز کو درپیش ہو گا وہ اپنے ووٹ بنک کو واپس لانا ہو گا۔‘
اُردو نیوز سے بات کرتے ہوئے سہیل وڑائچ نے کہا کہ ’مریم نواز کی پاپولیریٹی ایک جارحانہ سیاست کے نتیجے میں بنی تھی جب انہوں نے اپنے والد کا مقدمہ لڑا۔ لیکن اس کے بعد ن لیگ اپنے بیانیے سے پیچھے ہٹی تو صورت حال یکسر تبدیل ہو گئی۔ اس سے پہلے مریم نواز کا حکمرانی کا تجربہ بھی نہیں ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’مریم نواز کو ایک سپورٹ یہ بھی حاصل ہے کہ صوبے میں بیوروکریسی کی ٹیم پہلے ہی ایسی کام کر رہی ہے جو شریف خاندان کی فیور میں ہے۔ اس ٹیم کی اکثریت شہباز شریف کی مرضی سے لگائی ہوئی ہے۔ ’
سہیل وڑائچ نے مزید کہا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ شاید سسٹم سے ان کو کوئی خطرہ نہیں ہو گا البتہ ان کا اپنا وژن کیا ہو گا، ان کے نئے آئیڈیاز کیا ہوں گے اور وہ کیسے یوتھ کے ساتھ ہم آہنگ ہو سکیں گی۔ بہت کچھ ان کا حکمرانی کا دور شروع ہونے کے بعد واضح ہو گا جن کے بارے میں ابھی حتمی طور پر کوئی رائے نہیں دی جا سکتی البتہ ان کو بے چیلنجز کا سامنا ہو گا۔ ‘
خیال رہے کہ مریم نواز نے 2013 میں سیاست جب شروع کی تو انہیں ضلع لاہور کی کمپین انچارج بنایا گیا تھا۔ بعد ازاں ان کو یوتھ لیپ ٹاپ سکیم کا انچارج بنایا گیا لیکن عدالت نے انہیں اس عہدے سے ہٹا دیا۔
