اس عمر میں عام طور پر لوگ غریبی یا کسی دوسری پریشانی کے سبب سکول چھوڑتے ہیں لیکن سعد کی کہانی انتہائی حیرت انگیز ہے کیونکہ ان کے استاد انہیں سمجھنے سے قاصر تھے۔
عام طور پر 10 برس کی عمر میں بچوں کا دل کھیل کود کی طرف زیادہ مائل ہوتا ہے، مزاج میں ضدی پن ہوتا ہے، بازار میں پسند کی کوئی چیز نظر آ جائے تو اس کے لیے رونا اور والدین سے ضد کرنا کہ وہ انہيں وہ چیزیں خرید کر دیں۔
اس عمر میں بچوں کو اپنی صلاحیت کا علم نہیں ہوتا ہے۔ اگر کوئی بچہ غیرمعمولی صلاحیت کا حامل ہوتا بھی ہے تو کم عمری کی وجہ سے وہ اپنی کسی خاص ذہانت سے لاعلم رہتا ہے اور اسے یہ بات جاننے میں کافی وقت لگ جاتا ہے کہ وہ اپنی اس صلاحیت کا استعمال کہاں کرے۔
لیکن سعد ناصر اس معاملے میں خوش قسمت ٹھہرے کہ 10 برس کی عمر میں سکول چھوڑنے کے باوجود انہیں رہنمائی ملی اور ایسی رہنمائی کہ 14 سال کی عمر میں انہوں نے انڈیا کی پہلی خودکار الیکٹرک وہیکل ’شرپا‘ کی مشترکہ بنیاد رکھی۔
اخبار ’دی اکنامک ٹائمز‘ کے مطابق سعد ناصر ’انٹیل آئی آر آئی ایس‘ ایوارڈ کے فاتح ہیں۔ 10 برس کی عمر میں اس نے سکول کو خیرباد کہا اور سنہ 2017 میں محض 14 برس کی عمر میں ’اتی موٹرز‘ کی مشترکہ بنیاد رکھی۔‘
اس وقت سعد ناصر کی عمر 21 سال ہے۔ اتی موٹرز ایک ایسی کمپنی ہے جو خاص کر گوداموں یا کارخانوں جیسی جگہوں میں سامان کی نقل و حمل کے لیے خود کار الیکٹرک گاڑیاں بناتی ہے۔
سعد کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ شروع سے ہی وقت سے آگے کی سوچ رکھتے تھے۔ انڈین اخبار ’ڈی این اے‘ میں شائع رپورٹ کے مطابق ’سعد ناصر جب محض ایک برس کے تھے تو وہ بیٹریوں سے چلنے والے کھلونوں میں دلچسپی لینے لگے اور انہیں ان کے میکانزم اپنی طرف متوجہ کرنے لگے۔ وہ دو برس کی عمر میں صفائی سے کھلونے کھولنے لگے، پانچ برس میں وہ اپنے والد کی کمپیوٹر پروگرامنگ کی جاوا سے متعلق کتابیں پڑھنے لگے اور سات سال کی عمر کو پہنچتے پہنچتے انہوں نے کمپیوٹر پروگرامنگ لینگویج ’سی پلس پلس‘ کو سمجھنا شروع کر دیا تھا۔‘
ایک یوٹیوب چینل ’نیسکوم ایونٹس‘ کے پوڈکاسٹ میں بات کرتے ہوئے سعد ناصر نے بتایا:
’میں نے بہت چھوٹی عمر سے ہی پروگرامنگ لینگویجز سیکھنا شروع کر دی تھیں۔ میں نے زیادہ تر خود سے ہی تعلیم حاصل کی ہے لیکن میں بہت خوش قسمت رہا ہوں کہ گذشتہ برسوں میں مجھے کچھ اچھے مشیر ملے جن میں میری ٹیچر مسز سنہا سرفہرست ہیں۔ جب انہیں پتہ چلا کہ میں یہ چیزیں کر رہا ہوں تو انہوں نے میری ملاقات مسٹر جوشی سے کروائی اور اس وقت سے وہ میرے سرپرست رہے ہیں۔‘
سکول چھوڑنے کے بعد انہوں نے ایم آئی ٹی اور یونیورسٹی آف واشنگٹن جیسی بڑی یونیورسٹیوں سے سٹیٹسٹکس، الیکٹرانکس اور کمپیوٹیشنل نیورو سائنسز پر آن لائن کورس کیے۔
ان کے والد کا کہنا ہے کہ ’سعد ناصر کی غیرمعمولی صلاحیتوں کو سمجھنا آسان نہیں تھا۔ ناصر کی زندگی میں اصل چیلنجز تو اس وقت شروع ہوئے جب اس نے پہلی مرتبہ سکول جانا شروع کیا، اساتذہ اکثر اسے اپنے آپ میں مگن اور کلاس میں ہوتے ہوئے پڑھائی سے غیرحاضر پاتے۔ انہیں کس طرح سنبھالنا ہے یہ اساتذہ کی سمجھ سے باہر تھا۔ وہ اس کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر اس کی سرزنش کرتے جس کی وجہ سے سکول پر اس کا اعتماد کم ہونے لگا اور وہ اداس رہنے لگا۔‘
سعد کے اساتذہ ان کے والدین سے کہتے کہ وہ اسے ان کی کلاس سے اوپر کی چیزیں نہ پڑھائیں۔ ان کے اردگرد ہر کوئی اسے اس معاشرتی اور تعلیمی نظام میں فٹ کرنے کی کوشش کرتا جو صدیوں سے چلتا چلا آ رہا تھا لیکن شاید اس کی قابلیت اور ذہانت اس نظام سے کہیں زیادہ تھی۔
حالات اس وقت بہتر ہوئے جب سنہ 2008 میں 39 سالہ ٹیچر رنجیتا سنہا چین سے واپس بنگلور منتقل ہوئیں اور وہ سعد کے سکول میں دوسری جماعت کی استاد ٹھہریں۔
انہوں نے سعد کی صلاحیتوں کو بھانپ لیا اور اس سے قریب ہونے کی کوشش کی۔ انہوں نے اس حیرت انگیز بچے کے بارے میں سکول کے دوسرے اساتذہ کو بتایا لیکن انہیں کامیابی نہیں ملی۔
لیکن چونکہ انہیں سعد ناصر کی ذہانت پر بہت زیادہ یقین تھا اس لیے انہوں نے سکول کو اس بات پر قائل کر لیا کہ کو وہ سعد کو اس کی رفتار سے پڑھنے کی آزادی دے۔
بہرحال سعد کچھ عرصے مزید سکول میں پڑھتے رہے لیکن رفتہ رفتہ ان کے لیے وہاں وقت گزارنا مشکل ہوتا گیا اور ان کی دلچسپی ختم ہونے لگی اور انہوں نے سکول چھوڑ دیا۔
اسی دوران ٹیچر رنجیتا سنہا نے انہیں اپنے ایسے رشتہ داروں سے ملوایا جن میں سے ایک بنگلور کے اہم تعلیمی ادارے انڈین سکول آف سائنس میں تھے۔
مسز سنہا کے رشتہ دار نے سعد کی بابت کمپیوٹر کی بڑی کمپنی انٹیل کے اہلکاروں سے بات کی جنہوں نے سعد کو کمپنی میں جانچنے کے لیے مدعو کیا۔ اس وقت 15-20 انجینیئروں کی ایک ٹیم نے ان سے پروسیسر، الگورتھم، اور سی پلس پلس سے متعلق سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔ سعد نے تمام سوالات کے برجستہ جواب دیے اور پوری ٹیم محو حیرت رہ گئی۔
اس کے بعد وہ ’انٹیل‘ کے ساتھ منسلک ہو گئے اور ’آئی آئی ایس سی‘ سے علیحدہ ہونے والے پروفیسر وی ونے اور سوربھ چندرا کے ساتھ انہوں نے انڈیا کی پہلی آٹومیٹک الیکٹرک وہیکل ’شرپا‘ کی بنیاد رکھی۔
اس کے بارے میں پوسٹ کاڈ میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’اس گاڑی کو فیکٹریوں، گوداموں اور سامان کی نقل و حرکت کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ دنیا میں ایسے بہت سے مقامات ہیں جہاں بڑی گاڑیوں سے پہنچنا آسان نہیں ہوتا، اس لیے ہم ایک چھوٹی سی خودکار گاڑی بنا رہے ہیں تاکہ پہاڑی علاقوں میں سامان کی ترسیل میں جو دشواریاں ہوتی ہیں ان سے نمٹا جا سکے۔‘
فوربس انڈیا نے ان کی گاڑی ’شرپا‘ کے متعلق ایک مضمون میں لکھا ہے کہ اس کا نام نیپال کے شرپاؤں کے نام پر رکھا گیا ہے جو پہاڑوں پر کوہ پیماؤں کے لیے سامان ڈھونے کا کام کرتے ہیں۔
انسانوں کی خودکار گاڑیوں سے متعلق سوال پر سعد ناصر کا کہنا تھا کہ ’اس سے متعلق ابھی ایسا کچھ سوچا نہیں ہے۔ فی الحال ہمارا پورا دھیان سامان کے نقل و حمل والی گاڑیوں کی طرف ہے۔‘