کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں فروری کی ایک سرد شام کو ایک بڑے ہوٹل کے سامنے ایک ویگن رکی۔ تھوڑی ہی دیر میں ہوٹل کی راہداریوں سے پاکستانی کی قومی ائیرلائن پی آئی اے کے عملے کے افراد نمودار ہونا شروع ہوئے۔
جب سبھی لوگ اس ویگن میں بیٹھ گئے جو انہیں ائیرپورٹ لے کر جانے والی تھی تو احتیاطاً ایک پائلٹ نے عملے کے افراد کو گننا شروع کیا تو ان کی تعداد 17 تھی۔
مزید پڑھیں
عملے کا ایک رکن غائب تھا۔ جلد ہی سب کو اندازہ ہو گیا کہ مریم رضا نامی ایک 41 سالہ ائیرہوسٹس ابھی تک نہیں پہنچیں۔ کچھ دیر اور انتظار کیا گیا پھر کیپٹین اور عملے کے چند افراد اترے اور دوبارہ ہوٹل کے اندر گئے اور ہوٹل انتظامیہ کے ساتھ جا کر مریم رضا کے دروازے پر دستک دی گئی۔ اندر سے کوئی جواب نہ ملنے پر ماسٹر چابی سے دروازہ کھول دیا گیا۔
کمرے میں مریم رضا موجود نہیں تھیں۔ کپڑوں کی الماری میں صرف ان کا پی آئی اے ائیرہوسٹس کا یونیفارم لٹکا ہوا تھا اور اس پر موٹے مارکر سے لکھا ہوا تھا کہ ’تھینک یو پی آئی اے‘۔
ان کی تلاش میں آئے عملے کو صورتِ حال فوری سمجھ میں آ گئی اور وہ واپس آ کر ویگن میں بیٹھے اور ائیرپورٹ کی راہ لی کیونکہ وہاں پی آئی اے کی فلائٹ پی کے 784 واپس پاکستان جانے کے لیے تیار تھی۔
یہ فلائٹ 18 افراد کے عملے میں سے17 ارکان کو لے کر واپس پاکستان پہنچی۔
مریم رضا کا تعلق پاکستان کے شہر اسلام آباد سے ہے اور وہ پچھلے 20 برس سے پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائنز میں بطور ائیرہوسٹس ملازم تھیں۔
اس واقعے کے دو روز بعد پی آئی اے کے ایک 48 سالہ فضائی میزبان جبران بلوچ جن کا تعلق کراچی سے ہے، وہ بھی ایسے ہی ہوٹل کے کمرے سے بغیر بتائے کینیڈا میں غائب ہو گئے۔
روں برس جنوری میں فائزہ مختار نامی ائیرہوسٹس بھی کینیڈا جانے والی پی آئی اے کی فلائیٹ کے کینیڈا پہنچنے کے بعد غائب ہوئیں۔
![](/sites/default/files/pictures/March/43881/2024/pia_2.jpg)