Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا پی ٹی آئی ’کبھی ہاٹ کبھی کولڈ‘ پالیسی کی طرف بڑھ رہی ہے؟

عمران خان زیادہ سے زیادہ دباو ڈال کر الیکشن کمیشن سے جاری کردہ انتخابات کے نتائج واپس کروانا چاہتے ہیں(فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) نے شعلہ بیان رہنما شیر افضل مروت کو قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین نامزد کیا ہے۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) سرکاری اداروں کے احتساب کا اختیار رکھتی ہے اور کسی بھی حکومتی عہدیدار کو بلا کر اس سے حساب لے سکتی ہے۔
پاکستان کی پارلیمانی روایت رہی ہے کہ عام طور پر اپوزیشن لیڈر اس کمیٹی کا سربراہ ہوتا ہے تاہم پچھلے کچھ عرصے سے اپوزیشن کے دیگر رہنما بھی اس کمیٹی کے سربراہ منتخب ہوتے رہے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے مطابق شیر افضل مروت کی بطور اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین نامزدگی براہ راست عمران خان کی جانب سے کی گئی ہے جو کہ علی امین گنڈاپور کو بطور وزیراعلٰی منتخب کرنے اور عمر ایوب کو اپوزیشن لیڈر مقرر کرنے کے بعد عمران خان کا ایک ایسا فیصلہ ہے جس سے وہ پیغام دے رہے ہیں کہ آنے والے دنوں میں ان کی جماعت سخت اپوزیشن کر سکتی ہے۔
اگرچہ عمر ایوب کا پس منظر فوجی ہے اور نہ صرف یہ کہ ان کے دادا جنرل ایوب خان پاکستان میں مارشل لا لگانے والے پہلے فوجی حکمران تھے بلکہ ان کے والد بھی اوائل میں پاکستانی فوج کے افسر تھے۔
خود عمر ایوب نے اپنا سیاسی کیرئیر فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کے زیرسایہ شروع کیا اور اب تک پی ٹی آئی میں اسٹیبلشمنٹ کے قریب ہی تصور کیے جاتے تھے لیکن 9 مئی کے واقعات اور اس کے بعد انتخابات اور قومی اسمبلی کے افتتاحی اجلاس کے موقع پر وہ پی ٹی آئی کے مزاحمتی بیانیے کو فروغ دینے میں پیش پیش رہے ہیں۔

شیر افضل مروت کو قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین نامزد کیا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

دوسری طرف علی امین گنڈا پور پی ٹی آئی کے ان رہنماوں میں شمار ہوتے ہیں جو بہت سخت گیر ہیں اور بالخصوص 9 مئی کے بعد عمران خان کا ہر طرح سے ساتھ دیتے آئے ہیں۔
 جن دنوں عمران خان لاہور کے زمان پارک میں مقیم تھے اور ان کی گرفتاری کے خدشات تھے، ان دنوں علی امین گنڈا پور کے لوگوں نے ان کے گھر کے باہر مسلسل پہرہ دیا۔
علی امین گنڈاپور نے عمران خان کے مزاحمتی بیانیے کو ہر طرح سے آگے بڑھایا اور تحریک انصاف کے قریبی حلقوں کے مطابق انہی خصوصیات کی وجہ سے انہیں وزیراعلٰی مقرر کیا گیا۔
عمر ایوب نے جمعرات کو راولپنڈی میں اڈیالہ جیل کے باہر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے رہنماؤں کو عمران خان سے ملنے کی اجازت نہیں دی جا رہی، ملک میں قانون کا نظام نہیں ہے اور وہ اس کے لیے جدوجہد کریں گے۔
عمر ایوب نے کہا کہ وہ اپنی جماعت کے استحقاق کا معاملہ پارلیمان میں اٹھائیں گے اور اس پر بھرپور احتجاج کریں گے۔

عمر ایوب پی ٹی آئی کے مزاحمتی بیانیے کو فروغ دینے میں پیش پیش رہے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

تاہم سینیئر سیاسی تجزیہ کار ضیغم خان کے مطابق عمر ایوب پارلیمان میں تحریک انصاف کا ایک مصالحتی چہرہ ہے اور پی ٹی آئی ان کے ذریعے مصالحتی عمل کو آگے بڑھانا چاہتی ہے۔
جارحانہ حکمت عملی کی دو وجوہات
ضیغم خان کہتے ہیں کہ ’پی ٹی آئی اس وقت مصالحت اور جارحیت دونوں حکمت عملیاں اپنانا چاہتی ہے۔ ایک طرف وہ عمر ایوب کے ذریعے مصالحانہ پیغام دینا چاہ رہے ہیں اور عادل راجہ اور حیدر مہدی جیسے ہارڈ لائن یوٹیوبرز تک سے لاتعلقی اختیار کر رہے ہیں اور دوسری طرف وہ گنڈاپور اور شیر افضل مروت جیسے لوگوں کے ذریعے دباؤ بڑھانا چاہتے ہیں۔‘
ان کے مطابق عمران خان دو وجوہات کے باعث دباؤ برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ ایک یہ کہ انتخابات میں بہترین نتائج ملنے کے بعد وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں ایک مرتبہ پھر جارحیت کا موقع ملا ہے اور دوسرا یہ کہ ان نتائج کے باوجود ان کے ساتھ معاملات بحال کرنے کے لیے کوئی راستہ نہیں کھولا گیا۔
عمران خان کے ساتھ کھڑے ہونے والے لوگ
سینیئر صحافی مظہر عباس ضیغم خان سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ پی ٹی آئی کی ’ کبھی ہاٹ کبھی کولڈ والی پالیسی ہے۔‘
’ان کی جماعت کے اندر بھی یہ بحث چل رہی ہے کہ کس وقت کون سی پالیسی اپنائی جائے۔ زیادہ جارحانہ رویہ اختیار کیا جائے یا دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر چلا جائے۔‘
مظہر عباس کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی نے وزیراعلٰی خیبر پختونخوا، قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی تینوں آئینی عہدوں کے لیے ایسے لوگوں کی نامزدگی کی ہے جو عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں اور مخلص ہیں۔
’جہاں ایک طرف وہ حکومت کو دباؤ میں رکھنا چاہتے ہیں وہیں عمر ایوب جیسے قابل قبول چہرے کو اپوزیشن لیڈر نامزد کیا گیا ہے۔

علی امین گنڈا پور پی ٹی آئی کے ان رہنماوں میں شمار ہوتے ہیں جو بہت سخت گیر ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اسٹیبلشمنٹ سے بات بننے تک بات نہیں بنے گی
ضیغم خان سمجھتے ہیں کہ عمران خان زیادہ سے زیادہ دباو ڈال کر الیکشن کمیشن سے جاری کردہ انتخابات کے نتائج واپس کروانا چاہتے ہیں۔ لیکن انہیں اپنے مقاصد میں کامیابی اس وقت تک نہیں مل سکتی جب تک ان کے اسٹیبلشمنٹ سے معاملات درست نہیں ہوتے۔
’عمر ایوب کی بطور اپوزیشن لیڈر نامزدگی اس لیے کی گئی ہے کہ اب پارلیمانی نظام میں اپوزیشن لیڈر نے وزیراعظم کے ساتھ مل کر بہت فیصلے کرنا ہوتے ہیں اور اس کا اہم کردار ہوتا ہے۔ عمر ایوب اس کے لیے مناسب انتخاب ہے کیونکہ انہوں نے کئی فورمز اور بین الااقوامی دنیا کے سامنے بھی تحریک انصاف کی نمائندگی کرنا ہو گی۔‘
شخصیات کی نہیں پارٹی کی پالیسی چلے گی
تحریک انصاف کے ترجمان رؤف حسن نے اس بارے میں اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کس شخصیت کو کس عہدے کے لیے نامزد کیا گیا ہے کیونکہ جو بھی سامنے آیا گا وہ پارٹی کی حکمت عملی ہی آگے بڑھائے گا۔
’اس وقت تحریک انصاف کی حکمت عملی یہ ہے کہ اپنا بنیادی حق واپس لینے کی کوشش کریں اور ہمارے مینڈیٹ پر جو شب خون مارا گیا ہے اس کو واپس لیں۔‘
’اس کے لیے تحریک انصاف تمام آپشنز استعمال کر رہی ہے۔ ہم پارلیمان، قانونی فورمز اور احتجاج کے ذریعے اپنا یہ حق واپس لینے کی جدوجہد کریں گے۔‘

شیئر: