سینیٹ ضمنی انتخاب: ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا ’باپ‘ کی حمایت سے انکار
سینیٹ ضمنی انتخاب: ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا ’باپ‘ کی حمایت سے انکار
جمعرات 7 مارچ 2024 10:49
زین الدین احمد -اردو نیوز، کوئٹہ
سینیٹ میں بلوچستان اسمبلی کی دو نشستیں سردار اختر مینگل اور جام کمال خان کے قومی اسمبلی میں جانے سے خالی ہو گئی ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے بلوچستان اور مرکز میں اپنی اتحادی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کی سینیٹ کی دو خالی نشستوں پر حمایت کی درخواست رد کر دی ہے۔
بلوچستان سے سینیٹ کی تین خالی نشستوں پر اگلے ہفتے ہونے والے ضمنی انتخابات میں دونوں بڑی جماعتوں نے اپنے امیدوار کامیاب کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جمعیت علماء اسلام نے بھی اپنے امیدوار نامزد کر دیے ہیں۔
سینیٹ میں بلوچستان کے لیے مختص تین نشستیں ممبران کے مستعفی ہونے کے بعد خالی ہوئی ہیں۔
8 فروری کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے سرفراز احمد بگٹی اور بلوچستان عوامی پارٹی کے پرنس آغا عمر نے بلوچستان اسمبلی جبکہ جمعیت علماء اسلام کے مولانا عبدالغفور حیدری نے قومی اسمبلی کی نشست جیتنے کے بعد اپنی سینیٹ کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
تینوں ارکان مارچ 2021 میں چھ سال کے لیے سینیٹر منتخب ہوئے تھے۔ سینیٹ کی ان نشستوں کی مدت مارچ 2027 تک ہے۔ الیکشن کمیشن نے 14 مارچ کو اس پر ضمنی انتخاب کرانے کا اعلان کیا ہے۔
ضمنی انتخاب کے لیے دس امیدواروں کے کاغذات نامزدگی درست قرار دیے ہیں۔ ان میں پیپلز پارٹی کے عبدالقدوس بزنجو، آغا شکیل احمد درانی، طارق حسین مسوری اور میر حیر بیار ڈومکی، مسلم لیگ کے دوستین ڈومکی، میر خان کرد ، جمعیت علماء اسلام کے عبدالشکور خان غبیزئی اور آغا محمود شاہ شامل ہیں۔
بی اے پی کے مبین خان خلجی اور کہدہ بابر کے کاغذات نامزدگی بھی درست قرار دیے گئے ہیں۔
بلوچستان عوامی پارٹی کے وفود نے خالد مگسی، پرنس آغا عمر احمد زئی اور کہدہ بابر کی قیادت میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی صوبائی اور مرکزی قیادت سے ملاقاتیں کر کے سینیٹ کی دو نشستوں پر بی اے پی کی حمایت مانگی۔
ان کا مؤقف تھا کہ سرفراز بگٹی اور پرنس آغا عمر احمد زئی بی اے پی کے ٹکٹ پر سینیٹر منتخب ہوئے تھے اس لیے ان نشستوں پر بی اے پی کا حق ہے۔
دونوں جماعتیں بی اے پی کے امیدواروں کی حمایت کریں تاہم اردو نیوز کو ذرائع نے بتایا ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے بی اے پی کو انکار کر دیا ہے۔
تاہم بی اے پی کے ترجمان اور امیدوار کہدہ بابر کا کہنا ہے کہ دونوں جماعتوں نے ابھی تک ہمیں کوئی جواب نہیں دیا ۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے سابق وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو، مسلم لیگ ن نے سابق نگراں وزیراعلیٰ بلوچستان کے بھائی سابق وفاقی وزیر میر دوستین ڈومکی کو ترجیح فہرست میں پہلے نمبر پر رکھا ہے۔ دونوں کو عام انتخابات میں شکست ہوئی تھی۔
جے یو آئی نے گلستان سے تعلق رکھنے والے قبائلی رہنماءعبدالشکور غبیزئی کو امیدوار نامزد کیا ہے۔
65 رکنی بلوچستان اسمبلی کی دو نشستیں سردار اختر مینگل اور جام کمال خان کی جانب سے قومی اسمبلی میں جانے کی وجہ سے خالی ہوئی ہیں۔ ایک نشست کا نتیجہ ابھی تک جاری نہیں کیا گیا۔ اس طرح 62 ارکان ووٹ کاسٹ کر سکیں گے۔
ایک سینیٹر کو منتخب کرانے کے لیے 20 سے 21 ووٹوں کی ضرورت ہے۔ بلوچستان اسمبلی میں پیپلز پارٹی 17 اور مسلم لیگ ن کی 17 نشستیں، جمعیت علماء اسلام کی 12، بلوچستان عوامی پارٹی کی پانچ، نیشنل پارٹی کی چار، اے این پی کی تین جبکہ بی این پی عوامی، جماعت اسلامی اور حق دو تحریک کی ایک ایک نشست اور ایک رکن آزاد ہے۔
مخلوط حکومت میں شامل پیپلز پارٹی اور ن لیگ کا ایک ایک امیدوار باآسانی کامیاب ہوجائے گا تاہم اگر دونوں بڑی جماعتیں تیسری نشست کے لیے جے یو آئی کے علاوہ باقی تمام چھوٹی اور اتحادی جماعتوں سے اتحاد کر لیتی ہیں تو تیسری نشست بھی لے جا سکتی ہے۔
جے یو آئی نے اپوزیشن کی جماعت نیشنل پارٹی کے ساتھ اتحاد کیا تو ان کی ایک نشست پکی ہوجائے گی۔ اتحاد نہ ہونے کی صورت میں انہیں امیدوار کامیاب کرانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔