پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ کے ڈین ڈاکٹر فیصل سعود ڈار نے اردو نیوز کو بتایا کہ ہم نے راولپنڈی کے برین ڈیڈ مریض کے اعضا سے سات افراد کی جان بچائی ہے۔
عزیر بن یاسین نامی شخص نے مرنے سے قبل اپنے اعضا عطیہ کرنے کی وصیت کی تھی۔
ڈاکٹر فیصل سعود کے مطابق ’عزیر بن یاسین کے اعضا جن میں جگر، لبلبہ، گردے اور آنکھیں شامل ہیں، نکال لیے گئے تھے اور بعد میں انہیں دوسرے بیمار مریضوں کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔‘
ان تمام اعضا کو راولپنڈی اور لاہور میں سات افراد کی جان بچانے کے لیے استعمال کیا گیا۔
ڈاکٹر فیصل کا کہنا تھا کہ ’32 سالہ عزیر بن یاسین کا جگر ایک بچے اور جوان شخص میں ٹرانسپلانٹ کیا گیا۔ عطیہ کردہ لبلبہ ٹائپ ون ذیابیطس کے مریض میں ٹرانسپلانٹ کر دیا گیا۔ اُن کے اعضا سے مجموعی طور 7 بیمار افراد کو فائدہ پہنچا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’عطیہ کردہ آنکھیں اور گردے راولپنڈی کے چار مریضوں میں ٹرانسپلانٹ کیے گئے، ایک شخص کے عطیہ کردہ اعضا سے سات سے 10 لوگوں کی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔‘
ٹرانسپلانٹ سرجنز نے اہم عضو کو دو حصوں میں تقسیم کیا اور انہیں ایک بالغ اور ایک چھوٹے لڑکے میں ٹرانسپلانٹ کیا گیا۔ ان دونوں افراد کے جگر خراب تھے۔
پی کے ایل آئی کے ڈین نے کہا کہ ’اسی طرح 32 سالہ شخص کا لبلبہ ٹائپ 1 ذیابیطس کے مریض میں ٹرانسپلانٹ کیا گیا۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا لبلبہ ٹرانسپلانٹ بھی ہے۔‘
عزیر بن یاسین کی دونوں آنکھیں راولپنڈی کے شفا آئی ٹرسٹ ہسپتال میں عطیہ کی گئیں۔
تفصیلات کے مطابق دونوں آنکھیں راولپنڈی کے شفا آئی ٹرسٹ ہسپتال میں عطیہ کی گئیں جہاں ان کی پیوند کاری اندھے پن میں مبتلا دو افراد میں ہوئیں۔ جبکہ دونوں گردے راولپنڈی کے ایک نجی صحت مرکز میں ناکارہ گردوں والے دو الگ الگ مریضوں میں ٹرانسپلانٹ کیے گئے۔
سپلٹ لیور ٹرانسپلانٹیشن کیا ہے؟
ڈاکٹر فیصل سعود ڈار کے مطابق سپلٹ لیور ٹرانسپلانٹیشن میں ایک مردہ ڈونر کے جگر کو دائیں اور بائیں حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے جو بیک وقت دو وصول کنندگان میں لگائے جاتے ہیں۔
عام طور پر، ایک بالغ مریض کو جگر کا تقریباً 60 فیصد حصہ (دائیں لاب) ملتا ہے۔ جبکہ ایک پیڈیاٹرک (بچہ) مریض تقریباً 40 فیصد جگر (بائیں لاب) حاصل کرتا ہے۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں اس سے قبل بھی ڈونر کے جگر کی پیوند کاری کی جاتی رہی ہے۔ لیکن یہ پہلی بار ہوا ہے ہے کہ ہم نے کسی مردہ شخص کے جسم سے جگر نکالا ہو۔
’لبلبہ کا ٹرانسپلانٹ تقریباً 90 فیصد مریضوں میں کامیاب ہوتا ہے جنہیں سرجری کے بعد پہلے سال کے اندر انسولین کے انجیکشن نہیں لگانے پڑتے۔ پہلے سال کے بعد، لبلبہ کی پیوند کاری کے دو تہائی سے زیادہ وصول کنندگان اب بھی انسولین سے دور ہیں۔‘