انسان وہ ہے جس کا اخلاق اچھا ہو، اس کی زبان سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے
* * * *عنبرین فیض احمد ۔ کراچی* * * *
حرا! کبھی تم نے اپنی رنگت پر غور کیا ہے۔کتنی سانولی ہے تمہاری رنگت ، اس پر بھی کبھی نظر ڈال لیا کرو۔ چہرے پر کوئی ابٹن، کوئی صابن یا پھر کوئی رنگ گورا کرنے والی کریم ہی استعمال کرلیا کرو تاکہ کچھ تو رنگ اُجلا ہو۔ حرا نے جب سے ہوش سنبھالا ،اس نے ایسے ہی الفاظ سنے۔ سانولی رنگت کے احساس نے اسے کہیں کا نہیں چھوڑا تھا۔یہ احساس اسے کچھ کرنے ہی نہیں دیتا تھا۔ وہ یہی سوچتی تھی کہ ہر ا نسان میں کچھ نہ کچھ ایسا ہوتا ہے جو اسے دوسروں سے ممتاز کرتا ہے مگر شاید مجھ میں ا یسا کچھ بھی نہیں۔چہرے ہی کی بات نہ تھی، اسے اپنے بال بھی بے رونق لگتے تھے۔ غرض یہ کہ اس میں خوبصورتی والی کوئی بات نہیں تھی جس پر وہ خود پر ناز کرسکتی۔
اس کے سارے بہن بھائیوں کی رنگت گوری تھی، نجانے وہ کس پر چلی گئی تھی۔ احساس کمتری کا شکارہونے کے باعث وہ بہت ہی کم گھر سے باہر جاتی تھی ۔ اسے باہر کی دنیا کی کوئی خبر نہیں تھی۔ وہ آئینہ دیکھ کر اکثر اپنے چہرے پر حسرت بھری نگاہ ڈالتی اور پھر دل مسوس کر رہ جاتی۔ اکثر وہ آہ بھرتی اور سوچتی کہ کاش میں بھی اپنے دوسرے بہن بھائیوں کی طرح گوری ہوجاؤں۔ اب تو حد ہوگئی ، حرا بڑی ہوئی توخاندان والوں نے بھی کہنا شروع کردیا کہ ارے آپا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ حرا کا خیال نہیں رکھتیں، اسی لئے تو اس کی رنگت میں کوئی فرق نہیں آیا ورنہ لڑکیاں تو اس عمر میں سرخ و سفید ہوجایا کرتی ہیں۔ وہ اکثر سوچتی کہ دنیا میں ہر چیز کا مقابلہ کرسکتے ہیں مگر جمال کا مقابلہ کوئی کیسے کرسکتا ہے۔ میں تو حُسن کے زمرے میں ہی نہیں آتی، مقابلہ تو بہت دور کی بات ہے ۔ یہ بات کسی کی سمجھ میں نہیں آتی ۔
آجکل دنیا صرف حَسین لڑکیوں کو پسند کرتی ہے ۔بوا نے کہا کہ آپا میں تو صاف بات کتی ہوں، خواہ دل میں لگے یا دیوار میں۔ آپا آپ کو یہ بات بتلائے دے رہی ہوںکہ اچھے رشتے انہی لڑکیوں کے آتے ہیں جو حَسین و جمیل ہوتی ہیں۔ یہ سب باتیں سن کر حرا کی ماما بھی پریشان ہوجایا کرتی تھیں۔ ابھی تو اس نے کالج کے پرچے دیئے تھے۔ دوسری لڑکیوں کے خوبصورت بال اور گوری رنگت دیکھ کر اس کے دل میں ہلچل سی ہوتی تھی۔ اکثر کالج سے آنے کے بعد دو، دو تین تین بار صابن سے منہ دھونے کے بعد آئینے میں اپنا چہرہ دیکھتی کہ شاید رنگت میں کوئی فرق آجائے ۔ صابن سے رگڑنے کے باعث چہرے کی جلد ہلکی ہلکی سرخ ہوجاتی اور تھوڑی دیر کے بعد جب ذرا سی ہوا لگتی تویہ پھٹے کپڑے جیسی لگنے لگتی ۔
اسے یہاں تک جنون سوار ہوچکا تھا کہ وہ اپنا جیب خرچ جمع کرتی اور رنگ گورا کرنے والی کریمیں خرید کر آزماتی۔ ہر وہ کریم استعمال کرتی جس کا اشتہار اس نے ٹی وی پر دیکھا ہوتا۔ اس کی ماما اس کی اس عادت سے بڑی پریشان تھیں ۔ ہر وقت کریم ملنے سے جلد کی حالت ایسی ہوجاتی ہے جیسے چہرے کو تیل کے دریا میں غوطہ دے دیا گیا ہو۔ حرا سے اب لڑکیاں کالج میں بھی چھیڑ چھاڑ کرتیں کہ تم نے آج کون سی کریم خریدی ہے، ہمیں بھی بتاؤ، ہم بھی استعمال کریں گے۔ وہ اگر کوئی گہرے رنگ کا سوٹ پہن لیتی تو لڑکیاں اسے کہتیں کہ تم پر بالکل نہی جچ رہا۔ تم کوئی ہلکے رنگ کا سوٹ پہنا کرو۔
اسی لئے کالج میں بھی اس کی کوئی سہیلی نہیں تھی۔ وہ کلاس میں فارغ بیٹھ کر اپنی ہی سوچوں میں گم رہتی ۔ اکثر لڑکیاں اسے کہتیں کہ تمہیں اپنے بارے میں سوچنے کے سوا کوئی دوسرا کام نہیں؟ وہ کہتی کہ ایسی کون سی قیامت آگئی ۔ میں کچھ سوچ رہی ہوں تو کیا ہوا، کوئی ڈاکہ تو نہیں ڈال رہی۔ تم سب تو ایسی پریشان ہورہی ہوں جیسے میں تمہارے خلاف کوئی خفیہ سازش رچا رہی ہوں۔ اسی طرح گھر میں بھی جب کوئی چیز آتی تو تمام بہن بھائی لے لیتے اور پھر جو بچ جاتی وہ حرا کے حصے میں آتی۔ جب کبھی اس نے احتجاج کرنے کی کوشش کی تو ہمیشہ اسے یہی سننے کو ملتا کہ پہلے آئینے میں اپنی شکل تو دیکھو پھر مہارانیوں والے خواب دیکھنا۔ وہ کہتی کہ کیا ہوا، آئینہ تو کہتا ہے کہ تم بہت اچھی ہو، ذرا سا رنگ سانولا ہے تو ہوتا رہے ۔ میں نے چند روزپہلے ہی انٹرنیٹ پر پڑھا تھا کہ مغربی ممالک میں سانولی رنگت کو حَسین تصور کیا جاتا ہے۔ اسی لئے لوگ محتلف طریقوں سے اپنی رنگت کو سانولا بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہمارے پڑوسی ملک کی ایک دو کے سوا ساری ہیروئنز کالی یا سانولی رنگت والی ہیں اور ہم جو کچھ فلم پر دیکھتے ہیں، وہ سب تو صرف میک اپ کا کمال ہوتا ہے۔ جب حرا کی ماما نے دیکھا کہ ان کی بیٹی کو گوری رنگت کا شوق دیوانگی کی حد تک ہوگیا ہے تو انہوں نے کہا کہ دیکھو بیٹی! انسان تو وہ ہوتا ہے جس کا صورت سے زیادہ سیرت و کردار اچھا ہو۔ اس کی ذات سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ اس کا اخلاق اتنا اچھا ہوکہ اس کی زبان سے کسی دوسرے کو تکلیف نہ پہنچے۔ اگر کسی انسان کی سیرت و کردار اچھا نہ ہو تو وہ دنیا میں ہرگز کامیاب زندگی نہیں گزار سکتا۔ اس لئے تم اپنی صورت کو درست کرنے کی بجائے سیرت و کردار کی طرف توجہ دو تو بہتر ہے۔ کوئی ضروری نہیں کہ ہرحَسین انسان کی ہی زندگی کامیاب ہو ۔ ایسے حُسن کا کیا فائدہ جو اخلاق سے عاری ہو۔