’جہاں پڑھتے تھے وہاں والد سموسے فروخت کرتے‘، مقابلے کا امتحان پاس کرنے والی بہنیں
’جہاں پڑھتے تھے وہاں والد سموسے فروخت کرتے‘، مقابلے کا امتحان پاس کرنے والی بہنیں
اتوار 24 مارچ 2024 5:49
زین علی -اردو نیوز، کراچی
پاکستان کے جنوبی صوبہ سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدر آباد کے قریب واقع قصبے ٹنڈوجام سے تعلق رکھنے والے ایک محنت کش کی دو بیٹیوں نے پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں کامیابی حاصل کی ہے۔
مشکل حالات سے گزرنے والے حبیب انصاری اپنی بیٹیوں کی کامیابی پر بے حد خوش ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ زندگی بھر کی محنت رنگ لے آئی ہے۔ ’دو بیٹیوں کی کامیابی دیکھ رہا ہوں اور باقی بچوں کی کامیابی کے لیے بھی پر امید ہوں۔ آج احساس ہوتا ہے کہ میں نے کئی بار جو مشکل وقت دیکھا تھا اس کا پھل میری سوچ سے بھی زیادہ خوبصورت ہے۔‘
حبیب انصاری کے مطابق ’یہ سفر آسان نہیں تھا، ہم 80 کی دہائی سے حیدر آباد اور گردنواح کے علاقے میں سموسے فروخت کر کے اپنا گزر بسر کر رہے ہیں۔‘
حبیب انصاری نے کہا کہ ’میری بیوی کا اور میرا یہ ماننا تھا کہ بچوں کو اچھی تعلیم دیں گے تو ہی ان کا مستقبل بہتر ہو سکے گا۔ ہم نے کوشش کی بچوں نے ہمارے اعتماد کو درست ثابت کیا، دونوں بیٹیاں صباحت انصاری اور صدف انصاری سندھ پبلک سروس کمیشن کے امتحانات پاس کر کے 17 گریڈ کی افسر لگ گئی ہیں۔ باقی چھ بچے بھی بہت محنت کر رہے ہیں اور امید ہے وہ بھی اچھا مقام حاصل کریں گے۔‘
صباحت انصاری اور صدف انصاری کا کہنا ہے کہ ’ابتدا میں یقین نہیں تھا کہ یہاں تک آ سکیں گے۔ ہم نے اپنے والدین کو دیکھا ہے کہ انہوں نے مشکل سے مشکل حالات میں بھی ہماری تعلیم پر حرج نہیں آنے دیا، سارا دن والد سموسے فروخت کر کے جو پیسے کماتے اس کا ایک بڑا حصہ ہماری تعلیم پر خرچ کر دیا کرتے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’عید کے تہوار پر خاندان والوں کی طرح ہم تیاریاں نہیں کیا کرتے تھے، محدود بجٹ میں محدود تیاری کرتے تھے، لیکن سب بہن بھائی والدین کو دیکھتے کہ وہ کتنی محنت کرتے ہیں تو سب خوشی خوشی ہر حال میں اپنا وقت گزارتے اور تعلیم پر توجہ دیتے تھے۔‘
صباحت انصاری نے کہا کہ ’اب یہ کامیابی ہمیں ملی ہے، تو ہم سے زیادہ ہمارے والدین خوش ہیں۔ ان کی زندگی بھر کی محنت رنگ لے آئی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمیں یاد ہے ہمارے والد بہت زیادہ محنت کر کے ہماری فیس اور پڑھائی کے لیے پیسے جمع کرتے تھے، کبھی کمیٹی دیر سے ملنی ہوتی تھی تو کسی سے قرض لے کر ہماری فیس جمع کروایا کرتے تھے۔‘
’انہوں نے کبھی غربت کو ہماری تعلیم کے آڑے نہیں آنے دیا، جس یونیورسٹی میں ہم پڑھتے تھے وہاں ہمارے والد سموسے فروخت کرتے تھے۔ اس پر ہم نے کبھی شرمندگی محسوس نہیں کی بلکہ فخر کیا کہ ہمارے والد محنت کر کے ہمیں پال رہے ہیں، ہماری اچھی پڑھائی کروا رہے ہیں تاکہ ہم معاشرے میں اپنا مقام حاصل کر سکیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر محنت اور لگن ہو تو کوئی بھی کام مشکل نہیں ہوتا۔ پہلی بار میں جب سیلکٹ نہیں ہو سکی تو دل دکھا بھی اور رونا بھی آیا لیکن پھر گھر والوں نے بہت حوصلہ دیا، سپورٹ کیا اور آج یہ نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ ہم دونوں بہنیں اچھی نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی ہیں۔‘