انتھونی نوید: مسیحی طلبہ کو ٹیوشن پڑھانے سے سندھ اسمبلی کا ڈپٹی سپیکر بننے تک
انتھونی نوید: مسیحی طلبہ کو ٹیوشن پڑھانے سے سندھ اسمبلی کا ڈپٹی سپیکر بننے تک
جمعرات 14 مارچ 2024 5:28
انتھونی نوید اپنی زبانی اپنا سفر بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ایک متوسط طبقے اور اقلیت سے تعلق رکھنے والے شخص کے لیے سندھ اسمبلی کا ڈپٹی سپیکر بننا آسان نہیں تھا۔
ڈپٹی سپیکر سندھ اسمبلی انتھونی نوید نے اردو نیوز سے خصوصی انٹرویو میں کہا کہ ’ملک میں ایسا نظام تھا جہاں اقلیت کو اپنی مرضی سے اپنے علاقے سے کسی کو منتخب کرنے تک کا اختیار نہیں تھا۔ خوف کے بادل تھے، مشکل سفر تھا، بس کچھ کر لینے کی جستجو تھی۔‘
انہوں نے کہا ’ایسے میں کراچی کے کچھ نوجوانوں کی تعلیم میں مدد کا فیصلہ کیا اور اقلیتی کمیونٹی کے طلبہ کو مفت ٹیوشن پڑھانا شروع کی۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’آج پلٹ کر پیچھے دیکھتے ہیں تو اندازہ نہیں ہوتا کہ کہاں سے سفر شروع کیا تھا اور آج کہاں پہنچ گئے۔ اپنی مرضی سے ووٹ دینا تو بہت معمولی بات ہو گئی، اب تو پاکستان بنانے کی قراردار پیش کرنے والی اسمبلی میں ایک مسیحی مذہب سے تعلق رکھنے والا ڈپٹی سپیکر کے عہدے پر فائز ہے۔‘
سیاسی سفر کا آغاز کیسے ہوا؟
انتھونی نوید بتاتے ہیں کہ انہوں نے اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ مل کر اپنے علاقے کے مسیحی نوجوانوں کے تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لیے مفٹ ٹیوشن کا سلسلہ شروع کیا، مسیحی مذہب سے تعلق رکھنے والے نوجوان پڑھنے لکھنے میں اچھے تھے لیکن وسائل نہ ہونے کی وجہ سے وہ معاشرے میں اپنا مقام حاصل نہیں کر پا رہے تھے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ہم نے کراچی کی بڑی جامعات میں سینیئر لڑکوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی۔ یہ کمیٹی مسیحی نوجوانوں کو تعلیمی معاملات میں مدد فراہم کرتی تھی۔ اس کمیٹی سے ہم نے سیاسی سفر کا آغاز کیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ضیا دور میں اقلیتوں کو اپنے علاقے میں نمائندوں کو ووٹ دینے کا حق حاصل نہیں تھا۔ مسیحی ووٹر مسیحی امیدوار ہی کو ووٹ دیتا تھا اور ہندو ہندو کو ووٹ دیتا تھا جبکہ مسلمان ووٹر مسلمانوں کو ووٹ دیتا تھا۔‘
’ان نشستوں میں ناصرف کراچی بلکہ پاکستان کے دیگر علاقوں کے لوگوں کا بھی ووٹ شامل ہوتا تھا اور کئی مرتبہ ایسا ہوتا تھا کہ ہمارے ووٹ سے پنجاب کا نمائندہ منتخب ہو جاتا تھا۔‘
انتھونی نوید نے مزید کہا ’وہ جداگانہ انتخابات کا دور تھا۔ تقسیم کا معاشرہ تھا، جس سے ہمیں تکلیف ہوتی تھی۔ ہم یہ سوچتے تھے کہ ہم پاکستان کے برابر کے شہری ہیں۔ یہاں دھوپ، چھاؤں، بارش سب اقلیت اور اکثریت پر برابری کی بیناد پر ہوتی ہے تو سیاست میں یہ تفریق کیوں ہے۔‘
’یہ سوال لے کر ہم پاکستان پیپلزپارٹی کا حصہ بنے اور آج تک اسی جماعت کا حصہ ہیں۔‘
سیاست میں اقلیت کے لیے کام کرنا کتنا مشکل تھا؟
انتھونی نوید کا کہنا ہے کہ اس شہر کے باسیوں نے جو حالات دیکھے ہیں، اس کے اثرات ہم نے بھی دیکھے ہیں۔ کراچی میں پیپلز پارٹی کی حمایت کرنے والوں کے لیے کئی علاقے نوگو ایریا تھے۔ ایسے میں اقلیت کا حصہ ہوتے ہوئے پیپلز پارٹی میں کام کیا۔ آسان نہیں تھا لیکن ہم نے ہمیشہ لوگوں کی بہتری کا سوچ کر کام کیا تو ہمیں مشکلات کے ساتھ ساتھ آسانیاں بھی ملتی رہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’سال 2001 کے بلدیاتی انتخابات میں عوام دوست پینل کے پلیٹ فارم سے ہم نے الیکشن میں حصہ لیا۔ ایک سال بعد مخلوط انتخابات ہوئے اور اس الیکشن میں ہم نے بھرپور طریقے سے پاکستان پیپلز پارٹی کا ساتھ دیا۔ اسی طرح 2005 میں پارٹی کے ساتھ فارمولا پیش کیا کہ کراچی کے علاقے اختر کالونی میں 38 فیصد کے قریب مسیحی ووٹرز کی تعداد موجود ہے، اس علاقے سے ناظم یا نائب ناظم کے لیے کسی مسیحی امیدوار کا انتخاب کیا جائے۔‘
انتھونی نوید اس الیکشن کو پیپلز پارٹی کے لیے اس علاقے کا ٹرننگ پوائنٹ قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق 2005 کے بلدیاتی انتخابات میں اس علاقے سے پیپلز پارٹی بھاری اکثریت سے جیتنے میں کامیاب ہو گئی اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ سلسلہ آگے بڑھتا گیا۔ محمود آباد، اختر کالونی کی صوبائی اسمبلی کی نشست پیپلز پارٹی کی شہر میں مضبوط نشستوں میں سے ایک نشست کہلاتی ہے۔ اس علاقے سے پی پی رہنما صوبائی وزیر سعید غنی رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے ہیں۔
سپیکر کے لیے تمام ارکان اسمبلی برابر ہوتے ہیں
انتھونی نوید کہتے ہیں کہ اسمبلی کے بزنس کو آئین اور قانون کے تحت چلانا سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کی ذمہ داری ہے۔ سپیکر یا ڈپٹی سپیکر کے لیے حزب اختلاف یا حزب اقتدار کے تمام ارکان اسمبلی برابر ہوتے ہیں۔ اسمبلی کے بزنس کو چلانے کے لیے سب کو ساتھ لے کر چلنا ہماری ذمہ داری ہے۔
ڈپٹی سپیکر سندھ اسمبلی کہتے ہیں کہ ’صوبے میں اقلیت کے لیے پانچ فیصد روزگار کا کوٹہ تو موجود ہے لیکن اقلیت سے تعلق رکھنے والوں کے پاس اتنے وسائل ہی نہیں کہ وہ اس قابل ہو سکیں کہ اس کوٹہ کی سہولت سے مستفید ہو سکیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ کوشش کر رہے ہیں کہ حکومتی اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں کےساتھ مل کر کوئی ایسا فارمولا طے کر سکیں کہ نوجوانوں کے تعلیمی معاملات کو آسان کیا جا سکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’تعلیم ہو گی تو ہی نوجوان اچھی ملازمتیں حاصل کر سکیں گے اور پاکستان کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں گے۔‘
خوبصورت لہجے میں اردو بولنا والدین اور کراچی سے سیکھا
انتھونی نوید نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ ان کے والدین نے 60 کی دہائی میں پاکستان کے شہر سیالکوٹ سے کراچی ہجرت کی تھی۔ کراچی منتقل ہونے کے بعد تعلیم اور رہن سہن کی وجہ سے وہ اچھی اردو بولنا اور لکھنا جانتے ہیں۔
’اردو قومی زبان ہے اور لوگوں سے اردو زبان میں بات کرنا اچھا لگتا ہے۔‘