ثانیہ مرزا کانگریس کے ٹکٹ پر اسدالدین اویسی کے خلاف الیکشن لڑنے جا رہی ہیں؟
جمعرات 28 مارچ 2024 13:57
رپورٹ کے مطابق کانگریس اسدالدین اویسی کے مقابلے میں ثانیہ مرزا کو لانے پر غور کر رہی ہے (فوٹو: این ڈی ٹی وی)
انڈین ٹینس سٹار اور پاکستانی کرکٹر شعیب ملک کی سابق اہلیہ ثانیہ مرزا کے حوالے سے انڈین میڈیا میں خبریں گردش کر رہی ہیں کہ ہو سکتا ہے وہ آنے والے لوک سبھا کے الیکشن میں آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسدالدین اویسی کے خلاف میدان میں اتریں۔
ہندوستان ٹائمز نے بزنس ویب سائٹ منی کنٹرول کے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ کانگریس ٹینس سٹار کو حیدر آباد سے میدان میں اتارنے پر غور کر رہی ہے۔
کانگریس کی سینٹرل الیکشن کمیٹی نے بدھ کو ہونے والے اجلاس میں 18 ناموں کی منظوری دی جن کو چار ریاستوں سے انتخابات لڑایا جائے گا، جس کے بعد سے یہ افواہ بھی پھیل گئی کہ اس اجلاس میں ثانیہ مرزا کا نام بھی زیرغور آیا۔
رپورٹ میں سیاسی پنڈتوں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ ان کا خیال ہے کہ کانگریس ثانیہ مرزا کی شہرت اور سلیبرٹی سٹیٹس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شہر میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنا چاہتی ہے۔
کانگریس نے آخری بار حیدر آباد میں 1980 میں الیکشن جیتا تھا اور کے ایس نارائن ایم پی بنے تھے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ثانیہ مرزا کا نام انڈین کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اظہرالدین کی جانب سے تجویز کیا گیا۔
اظہرالدین اور ثانیہ مرزا کے خاندان ایک دوسرے کے ساتھ گہرا تعلق رکھتے ہیں اور اظہرالدین کے بیٹے محمد اسدالدین کی شادی ثانیہ مرزا کی بہن انعم سے ہوئی ہے۔
اظہرالدین نے تلنگانہ قانون ساز اسمبلی کے حالیہ انتخابات میں حصہ لیا تھا جہاں وہ جوبلی ہلز حلقے سے ماگنتی گوپی ناتھ کے مقابلے میں 16 ہزار ووٹوں سے ہار گئے تھے۔
حیدر آباد کا حلقہ گہرے ثقافتی خطوط اور متنوع آبادی رکھتا ہے اور اس کو آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا ہے، تاہم 2023 میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں ایک بڑی اور پرانی پارٹی کے ایک بار پھر سامنے آنے پر مجلس اتحاد المسلمین کو چیلنج کا سامنا ہوگا۔
1984 میں سلطان صلاح الدین اویسی نے آزاد امیدور کی حیثیت سے حیدرآباد کی نشست جیتی تھی جبکہ اس کے بعد 1989 سے 1999 تک یہ سیٹ وہ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے امیدوار کے طور پر جیتتے رہے۔
سلطان صلاح الدین اویسی کے بعد ان کے بیٹے اسدالدین اویسی نے اس سلسلے کو آگے بڑھایا اور 2004 سے یہ نشست ان کے پاس ہے۔ 2019 میں ان کے خلاف 14 امیدواروں نے حصہ لیا اور اس کے باوجود بھی انہوں نے تقریباً 59 فیصد ووٹ حاصل کر کے نشست جیتتے ہوئے اپنا سیاسی غلبہ ثابت کیا تھا۔