اس جزوی رکنیت کے باوجود دونوں ممالک کی فضائی اور سمندری سرحدوں پر سے کنٹرول ہٹانا اہم علامتی اہمیت کا حامل ہے۔
خارجہ امور کے تجزیہ کار سٹیفن پوپیسکو کے مطابق شینگن میں داخلہ بلغاریہ اور رومانیہ کے لیے ایک ’اہم سنگ میل‘ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’کسی بھی رومانئی کے شہری کو جسے دوسرے یورپی شہریوں کی نسبت الگ قطار میں لگنا پڑتا، محسوس ہوتا کہ اس کے ساتھ مختلف سلوک کیا جا رہا ہے۔‘
فرانس میں مقیم بلغاریہ کے ایک 35 سالہ مارکیٹنگ ایگزیکٹو، ایوان پیٹروف کے مطابق وہ کم دباؤ والے سفر کے بارے میں پُرجوش ہیں اور وہ وقت بچانے میں کامیاب ہوں گے۔
یورپی یونین کی سربراہ ارسولا وان ڈیر لیین نے سنیچر کو ایک بیان میں کہا کہ ’یہ دونوں ممالک کے لیے ایک بڑی کامیابی ہے، اور شینگن ایریا کے لیے ایک تاریخی لمحہ ہے، جو دنیا میں آزادانہ نقل و حرکت کا سب سے بڑا علاقہ ہے۔‘
بلغاریہ اور رومانیہ کی اتوار کو شمولیت کے ساتھ، شینگن زون 29 ممبران پر مشتمل ہو گا۔
رومانیہ کی حکومت نے کہا کہ شینگن قوانین چار سمندری بندرگاہوں اور 17 ہوائی اڈوں پر لاگو ہوں گے۔
بلغاریہ اور رومانیہ اس برس کے آخر تک شینگن میں مکمل طور پر ضم ہونے کے لیے پرامید ہیں۔
رومانیہ اور بلغاریہ کے بعد یورپی یورنین میں شامل ہونے والا ملک کروشیا ان دونوں سے پہلے ہی سنہ 2027 میں شینگن کا 27 واں رکن بن گیا تھا۔
سنہ 1985 میں بنایا گیا ’شینگن ایریا‘ 40 کروڑ سے زائد لوگوں کو داخلی سرحدی کنٹرول کے بغیر آزادانہ طور پر سفر کرنے کی اجازت دیتا ہے۔