کیا نواز شریف مسلم لیگ کی صدارت خود سنبھالنے جا رہے ہیں؟
کیا نواز شریف مسلم لیگ کی صدارت خود سنبھالنے جا رہے ہیں؟
اتوار 14 اپریل 2024 16:09
بشیر چوہدری، اردو نیوز۔ اسلام آباد
سلمان غنی کے مطابق شہباز شریف اگرچہ پارٹی صدر ہیں لیکن وہ پارٹی کے تنظیمی معاملات میں پہلے ہی کم دلچسپی لیتے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے دو بڑے فیصلے کرتے ہوئے شہباز شریف سے پارٹی صدارت واپس لیتے ہوئے خود پارٹی صدر بننے اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کے خط کے معاملے سپریم کورٹ میں زیرِسماعت کیس میں فریق بننے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس حوالے سے پاکستان مسلم لیگ ن کے ایک اہم رہنما نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’نواز شریف نے عید کے بعد سیاسی میدان میں متحرک ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ وہ پارٹی کو منظم کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت اور پارٹی معاملات کو الگ الگ کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ اس سلسلے میں نواز شریف نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ وہ پارٹی کی صدارت بھی خود سنبھالیں گے۔‘
’اس سلسلے میں جلد ہی مسلم لیگ ن کی جنرل کونسل کا اجلاس بلایا جائے گا جہاں پارٹی کے نئے صدر کا انتخاب عمل میں لایا جائے گا۔‘
خیال رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہو گا کہ نواز شریف پارٹی صدارت سے ہٹائے جانے کے بعد اس منصب پر واپس منتخب ہوں گے بلکہ پرویز مشرف دور میں بھی انہیں اس منصب سے علیحدہ ہونا پڑا تھا اور شہباز شریف مسلم لیگ ن کے صدر منتخب ہوئے تھے تاہم سنہ 2010 میں نواز شریف دوبارہ پارٹی کے صدر منتخب کیے گئے تھے۔
مسلم لیگ ن کے رہنما کا کہنا تھا کہ ’نواز شریف سمجھتے ہیں کہ سیاسی محاذ پر مسلم لیگ ن کو متحرک رکھنے کے لیے اسے تنظیمی طور پر مضبوط کرنا ضروری ہے۔ وہ اس سلسلے میں خاموشی سے کام کر رہے تھے اور پارٹی رہنماؤں سے مشاورت کا سلسلہ بھی جاری تھا جس کے نتیجے میں یہ طے پایا ہے کہ نواز شریف ہی پارٹی کے صدر ہوں گے۔‘
نواز شریف کے اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے سینیئر صحافی اور تجزیہ نگار سلمان غنی کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن اصل میں نواز شریف کی ہی جماعت ہے اور اس جماعت کے نام میں شامل لفظ ن نواز شریف ہی ہیں۔ پارٹی کے رہنما اور کارکنان شہباز شریف کی موجودگی میں بھی پارٹی کے اہم فیصلوں کے لیے نواز شریف کی طرف ہی دیکھتے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ فیصلے نواز شریف ہی کرتے ہیں۔ اس لیے اگر نواز شریف پارٹی صدارت سنبھالتے ہیں تو اس میں کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’اگر ماضی میں دیکھا جائے تو نواز شریف کو حکومت سے زیادہ اپنی پارٹی عزیز رہی ہے، انہوں نے حکومتوں کی قربانی دی ہے لیکن پارٹی کی سیاست پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ اب بھی نواز شریف کو موجودہ حکومت سے کوئی زیادہ امید بھی نہیں ہے اور انہیں اس کا مستقبل بھی کچھ زیادہ واضح نظر نہیں آ رہا۔ اس لیے نواز شریف اپنی پارٹی کی سیاست بچانے کے لیے متحرک ہوئے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ وہ اپنی جماعت کو منظم کرتے ہوئے کارکنان سے براہ راست رابطے میں آئیں۔ ایسی صورت میں وہ حکومت کو عوام دوست فیصلے کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔‘
سلمان غنی کے مطابق شہباز شریف اگرچہ پارٹی صدر ہیں لیکن وہ پارٹی کے تنظیمی معاملات میں پہلے ہی کم دلچسپی لیتے ہیں اور اب تو وزیراعظم ہونے کی وجہ سے ان کے پاس پارٹی کے لیے کوئی وقت بھی نہیں ہے۔ اس لیے نواز شریف نے پارٹی صدر بننے کا فیصلہ کیا ہے جو کہ ن لیگ کی سیاست کے لیے بہتر ہوگا۔
سیاسی امور کی ماہر ڈاکٹر آمنہ محمود نے نواز شریف کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کی وطن واپسی کے بعد سے اب تک ہر اس فیصلے کو واپس لیا گیا ہے جو سنہ 2017 میں انہیں اقتدار سے باہر نکالنے کے لیے کیا گیا تھا۔ نواز شریف کا پارٹی کا صدر بننا ایک اور فیصلے کو واپس لینے کے سلسلے کی کڑی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ تاثر دن بدن مضبوط ہوا ہے کہ نواز شریف کی واپسی اس ریورس انجینیئرنگ سے مشروط تھی جس کے تحت ایک ترتیب کے ساتھ نواز شریف کو اقتدار سے باہر کیا گیا، ان کے خلاف مقدمات بنائے گئے، انہیں سزا سنائی گئی اور انہیں پارٹی صدارت سے ہٹایا گیا۔ اب وہ سارے فیصلے ایک ایک کر کے واپس ہو چکے ہیں تاہم ایک فیصلہ ابھی بھی باقی ہے کہ نواز شریف وزیراعظم نہیں ہے۔‘
ڈاکٹر آمنہ محمود کے مطابق موجودہ حالات میں نواز شریف وزیراعظم بنتے دکھائی تو نہیں دیتے تاہم اپنی پارٹی کی سطح پر سیاست کرتے ہوئے وہ عوامی سطح پر پارٹی کو مضبوط کرنے کی کوشش ضرور کر رہے ہیں جس کا حتمی فائدہ اگر نواز شریف کو نہ بھی ملا تو آئندہ انتخابات میں مریم نواز کو مل سکتا ہے۔
دوسری جانب ایک اور مسلم لیگی رہنما نے اردو نیوز کو بتایا کہ حال ہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط اور خفیہ ایجنسوں کی عدالتی معاملات میں مداخلت کے معاملے پر سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کیس میں نواز شریف نے فریق بننے کا فیصلہ کیا ہے۔
’نواز شریف اس سلسلے میں اپنی قانونی ٹیم سے مشاورت کر رہے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ اداروں کی مداخلت کے باعث ہی ایک منصوبہ بندی کے تحت انہیں پانامہ کے نام پر اقامہ میں سزا سنائی گئی اور اقتدار سے باہر کیا گیا۔ نواز شریف سمجھتے ہیں کہ اس منصوبہ بندی میں سابق چیف جسٹس صاحبان جن میں ثاقب نثار اور اصف سعید کھوسہ بھی شامل ہیں، اب اس معاملے کو کھل کر سامنے آنا چاہیے۔‘
مسلم لیگ ن کے رہنما کے مطابق نواز شریف نے قانونی ٹیم کو ہدایت کی ہے کہ وہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کیس کے فیصلے کی بنیاد پر اس میں فریق بننے کے لیے جواز پیش کریں۔ کیونکہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے جو الزامات خفیہ اداروں اور ان کے سربراہان پر عائد کیے تھے انہی کی بنیاد پر نواز شریف اور مریم نواز کو سزا سنائی گئی تھی۔
’نواز شریف سمجھتے ہیں کہ اگر اداروں کو اپنے اپنے آئینی دائرہ کار میں رہنے اور دوسروں کے کام میں مداخلت سے روکنا ہے تو پھر ماضی قریب میں دوسرے اداروں کے کام میں مداخلت کرنے والوں کو بے نقاب کرنا ہوگا اور یہ کام خود عدلیہ کرے تو بہتر ہے جس وجہ سے وہ اس کیس میں فریق بننے جا رہے ہیں۔
اس حوالے سے قانونی ماہر عارف چوہدری نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی کیس میں فریق بننے خواہش تو کی جا سکتی ہے تاہم یہ فیصلہ عدلیہ کا ہے کہ وہ کسی کو اس میں فریق بناتی ہے یا نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جتنے فریق ہوں گے کہ اس کا دائرہ کار اتنا ہی وسیع ہوتا جائے گا اور پھر اسے سمیٹنا نہ صرف مشکل ہو جاتا ہے بلکہ اس کے نتائج بھی بعض اوقات قابو سے باہر ہوتے ہیں۔
ان کے مطابق یہ بات تو سچ ہے کہ ماضی میں بھی عدلیہ کے معاملات میں مداخلت ہوتی رہی ہے اور نواز شریف کی سزائیں بھی ختم ہو چکی ہیں، ان کا شکوہ بھی جائز ہے تاہم اس وقت عدلیہ کے سامنے چھ ججز کا خط ہے جس کا جائزہ فل کورٹ لے رہی ہے۔ سپریم کورٹ اس معاملے کو انتظامی سطح پر حل کرنا چاہتی تھی تاہم لیگل کمیونٹی کے دباؤ پر اسے ازخود نوٹس میں تبدیل کیا گیا اس لیے بظاہر یہ دکھائی نہیں دے رہا کہ سپریم کورٹ نواز شریف کی فریق بننے کی درخواست کو قبول کرے گی۔