پاک سعودی معاشی تعلقات کی مضبوطی لیڈر شپ کا وژن ہے: سفیر احمد فاروق
پاک سعودی معاشی تعلقات کی مضبوطی لیڈر شپ کا وژن ہے: سفیر احمد فاروق
اتوار 28 اپریل 2024 8:13
خالد خورشید -اردو نیوز، جدہ
احمد فاروق سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر ہیں۔ (فوٹو: جدہ قونصل خانہ)
سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر احمد فاروق نے کہا ہے کہ ’مستقبل میں ہم بڑی سعودی سرمایہ کاری اور معاہدے دیکھ سکتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’وزیراعظم شہباز شریف کا دورے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ مختلف شعبوں میں مزید بات چیت جاری رکھیں اور جن منصوبوں پر بات چیت ہو رہی ہے انہیں آگے لے کر چلیں۔‘
ریاض مین پاکستان کے سفیر، سعودی وفد کی وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کے بعد اردونیوز سے خصوصی گفتگو کی۔
غازی بروتھا، ریکوڈک سمیت پاکستان کے میگا پروجیکٹس میں سعودی سرمایہ کاری کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ’یہ بہت بڑے اور کمپلکس قسم کے منصوبے ہیں۔ ان پر بات چیت میں وقت درکار ہے۔ اس پر ڈسکشن جاری ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’بات چیت میں کتنا عرصہ لگے گا۔ اس بارے میں زیادہ نہیں کہوں گا۔ دونوں اطراف کی اپنی اپنی ترجیحات ہیں۔ بات چیت میں آپس کے اختلافات کو کم کیا جاتا ہے تب کہیں جا کر کسی نتیجے پر پہنچتے ہیں اور دستاویز پر دستخط کیے جاتے ہیں۔‘
واضح رہے سعودی عرب اور پاکستان مضبوط تجارتی، دفاعی اور ثقافتی تعلقات رکھتے ہیں۔ مملکت میں 27 لاکھ سے زائد پاکستانی موجود ہیں اور سب سے زیادہ ترسیلات زر بھی یہیں سے پاکستان جاتی ہیں۔
سعودی عرب میں پاکستانی ورک فورس کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ’مملکت میں اس وقت معاشی سرگرمیاں خصوصاً بڑے تعمیراتی منصوبے چل رہے ہیں۔ کوشش ہے ہم اپنی ورک فورس کو مطلوبہ ضروریات کے مطابق ٹرینڈ کریں اور انہیں ان منصوبوں میں ملازمت دلوا کر کر پاکستان سے لے کر لائیں۔‘
اس سوال پر کہ کیا ریاض معاشی سطح پر کیے جانے والے پاکستان کے اقدامات سے مطمئن ہے؟
سفیر پاکستان نے کہا ’سعودی وزیرخارجہ نے اپنے دورے میں مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران اس حوالے سے جو ریمارکس دیے اس میں انہوں نے اطمینان کا اظہار کیا تھا۔‘
’سعودی وفد نے پاکستان کا دورہ کیا اور جو بات چیت ہوئی وہ اس میں بہت پوٹیشنل دیکھ رہے ہیں۔ سعودی عرب اور پاکستان کے معاشی تعلقات بہتر ہوں گے۔‘
احمد فاروق کے بقول ’پاکستان نے جو اقدامات اٹھائے ہیں اور خاص طور سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) کا قیام، سعودی وفد نے اس کی تعریف کی اور اس خیال کا اظہار کیا کہ عنقریب جو بڑے منصوبے اور جو نجی کاروبار ہیں ان کے درمیان بھی مزید تعلقات کو فروغ دیا جائے گا تاکہ پرائیویٹ سیکٹر میں دونوں ملکوں کے درمیان تجارت میں اضافہ ہو اور حکومتی سطح پر بھی سرمایہ کاری کے ساتھ تجارت بھی ہو۔‘
ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ ’دیکھیں، سعودی عرب ہمارے لیے ہمیشہ ایک اہم ملک رہا ہے۔ ہمارے ان کے ساتھ سیاسی طور پر اور دوسرے اعتبار سے بڑے قریبی تعلقات ہیں اور دونوں ملکوں کی لیڈر شپ کا یہ وژن ہے کہ اس تعلق کو مزید آگے لے جانے لے لیے ہم نے معاشی تعلقات کو مضبوط کرنا ہے۔‘
’ اس کے لیے یہ اہم ہے کہ حکومتی سطح پر بھی معاشی تعلقات مضبوط ہوں یعنی گورنمنٹ لیول پر انویسٹمنٹ کی جائے اور خاص طور پر پرائیویٹ سیکٹر جو معیشت کا انجن ہے ان کے درمیان ایسے تعلقات استوار ہوں جس سے دونوں ملکوں کے معاشی تعلقات مضبو تر ہو سکیں۔‘
انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ ’آنے والے دنوں میں آپ کو اس میں رزلٹ دیکھنے میں آئیں گے، اس کے لیے کوششں کی جا رہی ہے۔‘
پاکستان میں سعودی سرمایہ کاری کے حجم کے حوالے سے کہا کہ ’دیکھیں کوئی فِگر سامنے نہیں آئی۔ ابھی دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت کا عمل جاری ہے۔ اگر آپ پرائیویٹ سیکٹر کی بات کریں تو یہ ان کے آپسی تعلقات ہیں وہ ان پر منحصر ہے کہ دونوں ملکوں کی کمپنیاں کس طرح سے ایک دوسرے کے ساتھ بزنس کو استوار کرتی ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اس وقت تجارتی تعلقات کا جو لیول ہے وہ زیادہ مضبوط نہیں ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ ہمارے جو برادرانہ تعلقات ہیں اس کے لحاظ سے معاشی تعلقات بھی بہت مضبوط ہونے چاہییں لیکن وہ ویسے نہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ انہیں مضبوط بنایا جائے۔‘
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ’حکومت کا بنیادی منشور یہی ہے کہ ہمیں اپنے ملکی حالات خاص طور پر معاشی صورتحال کو بہتر بنانا ہے۔ بہت سی اصلاحات کی ضرورت ہے اور یہ ہمارا انٹرنل ایجنڈا ہے۔ اس میں باہر سے کسی کو کچھ بتانے کی ضرورت نہیں، ہم اس پر کام کریں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’سعودی وژن 2030 ایک اچھی مثال ہے کہ کوئی بھی ملک ایک قلیل عرصے میں اپنی اکانومی، کلچرل اور سوشل معاملات کو کیسے تبدیل کر سکتا ہے۔ یقینا یہ تمام دنیا کے ممالک کے لیے ایک اچھی مثال ہے۔‘
واضح رہے وزیراعظم شہباز شریف نے عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلا غیر ملکی دورہ سعودی عرب کا کیا تھا اس کے بعد سعودی وزیرِ خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان سعودی وفد کے ہمراہ پاکستان آئے تھے۔
ان دوروں کا مقصد دوطرفہ اقتصادی تعاون کو بڑھانا اور پہلے سے طے شدہ سرمایہ کاری کے معاہدوں کو آگے بڑھانا ہے۔
ورلڈ اکنامک فورم میں پاکستان کی شرکت کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ’یہ وہ فورم ہے جس میں دنیا کے مختلف حصوں سے سیاسی رہنما، دانشور اور معاشی ماہرین آتے ہیں، یہ فورم دنیا کو درپیش مسائل پر تبادلہ خیال کا ایک موقع فراہم کرتا ہے۔ سعودی عرب نے اسے ہوسٹ کیا ہے۔ بنیادی مقصد یہی ہے کہ اس وقت معیشت سمیت جو اہم ایشوز ہیں اس پر بین الاقوامی شخصیات کو بلایا جائے اور وہ مسائل پر تبادلہ خیال کریں اور اس کا حل تلاش کریں‘۔
اجلاس میں شرکت کے لیے پاکستان کو بھی دعوت دی گئی۔ وزیراعظم، وزیر خارجہ اور وزیر خزانہ اس فورم کے مختلف سیشن میں شرکت کر رہے ہیں۔