Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کے لیے امریکی وزیر خارجہ ’پُرامید‘

اجلاس کی صدارت سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے کی۔(فوٹو: ایس پی اے)
سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں جی سی سی کے ممالک اور امریکی وزیرخارجہ کے مشاورتی اجلاس میں غزہ کی تازہ ترین صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے فوری جنگ بندی کے لیے مناسب حل پر غور کیا گیا۔
سعودی خبررساں ایجنسی ایس پی اے کے مطابق اجلاس کی صدارت سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے کی۔
قطری نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمان آل ثانی، اماراتی وزیرخارجہ شیخ عبداللہ بن زاید آل نھیان، اردنی نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ ایمن الصفدی، مصر کے وزیر خارجہ سامح شکری اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کی ایگزیکٹو کمیٹی کے سیکریٹری برائے شہر امور حسین الشیخ شریک تھے۔
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن بھی اجلاس میں شریک تھے۔ اجلاس میں تنازع فلسطین کے حل کے لیے مختلف پہلوؤں پربھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
شرکا نے جنگ کے خاتمے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے عالمی انسانی قانون کے تحت شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کے علاوہ متاثرین کی بحالی اور انہیں فوری امداد پہنچانے کے لیے پابندیوں کے خاتمے کی ضرورت پر زوردیا۔
مشاورتی اجلاس میں عرب ممالک کی جانب سے فلسطینی ریاست کو عالمی سطح پر تسلیم کرنے کے معاملے کی حمایت کے حوالے سے کی جانے والی کوششوں پر بھی روشنی ڈالی گئی۔ علاوہ ازیں فلسطینی ریاست کی آزادی اور جون 1967 کی سرحدوں کی بحالی کو دو ریاستی حل کے لیے اہم اقدام قرار دیا گیا۔
اجلاس میں امریکہ میں سعودی عرب کی سفیر شہزادی ریما بن بندر بن سلطان، وزارت خارجہ میں سیاسی امور کے انڈرسیکریٹری ڈاکٹر سعود الساطی کے علاوہ وزارت کی مشیر ڈاکٹر منال رضوان اور ڈائریکٹر مشرقی ڈیسک محمد الحربی بھی موجود تھے۔
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ ‘حماس یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے غزہ پر اسرائیل کے تباہ کن حملے روکنے کے لیے ’غیرمعمولی فراخدالانہ‘ جنگ بندی کی پیشکش کو قبول کر لے گی۔‘

فلسطینی ریاست کی آزادی اور جون 1967 کی سرحدوں کی بحالی کو دو ریاستی حل کے لیے اہم اقدام قرار دیا گیا۔(فوٹو: ایس پی اےا)

عرب نیوز کے مطابق ریاض میں پیر کو عالمی اقتصادی فورم کے خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’حماس کو فیصلہ کرنا ہو گا اور فوری طور پر فیصلہ کرنا ہو گا کہ جنگ بندی کی ’غیر معمولی فراخدلانہ‘ پیشکش کو قبول کیا جائے یا نہیں۔ مجھے امید ہے کہ وہ درست فیصلہ کریں گے اور ہم ڈائنامکس میں بنیادی تبدیلی لا سکتے ہیں۔‘
یاد رہے کہ مصر کا ایک اعلٰی سطح کا وفد گزشتہ جمعے مذاکرات کے لیے اسرائیل پہنچا تھا۔ چھ ماہ سے جنگ بندی اور حماس کے زیر حراست اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے نئی سفارتی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
گزشتہ سال سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر حماس کی قیادت میں ہونے والے حملے کے بعد شروع ہونے والے غزہ کے تنازع کے نتیجے میں تقریباً 35 ہزار فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔
بلنکن نے کہا کہ ’ہم شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں جو تنازع کو ختم کرنے اور اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ مزید نہ پھیلے اور یہ اجتماعی کوشش ہے۔‘

امریکی وزیر خارجہ نے رفح میں اسرائیلی فوجی آپریشن کی امریکی مخالفت کا اعادہ کیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی میں اہم کردار کرنے پر مصر اور قطر کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ’غزہ تنازع کے خاتمے کا تیز ترین راستہ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی ہے۔‘
امریکی وزیر خارجہ نے غزہ کے جنوبی شہر رفح میں اسرائیلی فوجی آپریشن کی امریکی مخالفت کا اعادہ کیا۔
بلنکن نے کہا کہ ’ہم نے ابھی تک کوئی ایسا منصوبہ نہیں دیکھا جس سے ہمیں اعتماد ملے کہ شہریوں کو موثر طریقے سے تحفظ فراہم کیا جا سکتا ہے۔‘

شیئر: