Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فیض آباد دھرنا کیس: ’کمیشن کی رپورٹ میں فیض حمید کو بری کیوں کیا جا رہا ہے؟‘

چیف جسٹس نے کمیشن کی رپورٹ کے حوالے سے کہا کہ مجھے تو اس رپورٹ پر مایوسی ہی ہوئی ہے۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیض آباد دھرنا کمیشن کی رپورٹ پر کہا ہے کہ ’آوٹ آف وے‘ جا کر فیض حمید کو رپورٹ میں بری کیوں کیا جا رہا ہے؟
پیر کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس نعیم اختر اعوان پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رُکنی بینچ نے فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس پر سماعت شروع کی تو کمیشن کی جانب سے اپنی رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی۔
تاہم کمیشن کے سربراہ سمیت تینوں ممبران میں سے کوئی بھی عدالت میں پیش نہ ہوا۔
چیف جسٹس نے کمیشن کی رپورٹ کے حوالے سے کہا کہ مجھے تو اس رپورٹ پر مایوسی ہی ہوئی ہے۔ کیا یہ کمیشن وقت ہی ضائع کرتا رہا۔
’کہتے ہیں بس آگے بڑھو، ماضی سے سیکھے بغیر کیسے آگے جا سکتے ہیں؟ جو لوگ ماضی سے سبق نہ سیکھیں انہیں سکھایا جانا چاہیے۔‘
انہوں نے کہا کہ کمیشن کہتا ہے دھرنا دینے والے نہیں پنجاب حکومت ذمہ دار ہے۔
چیف جسٹس فاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ کمیشن کہہ رہا ہے قانون موجود ہیں ان پر عمل کر لیں۔ بہت شکریہ، یہ کہنے کے لیے کیا ہمیں کمیشن بنانے کی ضرورت تھی؟
’اگر 2019 والے فیصلے پر عمل کرتے تو 9 مئی بھی شاید نہ ہوتا۔‘
انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا کمیشن نے تحریک لبیک سے تحقیقات کی ہیں؟ رپورٹ میں کہیں ٹی ایل پی کا ذکر نظر نہیں آ رہا، ہو سکتا ہے تحریک لبیک والے ہی ان کو بتا دیتے کہ کیا ہوتا رہا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’آوٹ آف وے‘ جا کر فیض حمید کو رپورٹ میں بری کیوں کیا جا رہا ہے؟
’کمیشن لکھتا ہے آرمی کو ان معاملات سے دور رکھنا چاہیے تو معاہدے پر دستخط کیوں کیے۔ بے شک اجازت بھی ہو، کیا اجازت تحریری تھی؟‘
 

شیئر: