وزیر اعظم پاکستان نے چینی صدر کی اس تجو یز سے بھی اتفاق کیا کہ ایس سی او کے رکن ممالک کے درمیا ن اچھی ہمسائیگی کا 5 سالہ معاہد ہ ہو نا چاہئے
* * * * سید شکیل احمد****
پاکستان اور ہند شنگھا ئی تعاون تنظیم کے کل وقتی رکن بنالئے گئے ہیں۔مغرب میں اس تنظیم کو نیٹو طاقت کے توازن کے طو رپر دیکھا جا رہا ہے ۔ روس نے تنظیم کے اجلا س میں ہند کی کل وقتی رکنیت کیلئے وکالت کی جبکہ چین نے پاکستان کی حما یت کی یہ تنظیم 2001ء میں وجود میں آئی تھی، جس کا مقصد معاشی ، اقتصادی ، تجا رتی اور دیگر شعبو ں میں علا قائی ملکو ں کا ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور مسائل کو حل کر نا ہے مگر مغربی دنیا کی اس بارے میں سوچ الگ ہی رہی ہے ان کا گما ن ہے کہ چین اب باہر کی دنیا کی طرف قدم بڑھا رہا ہے اور اپنی طاقت کا مظاہر کر نا مقصود ہے چنانچہ وہ بیر ونی ملک اپنے اڈے قائم کر نے کی تگ ود و میں ہے تاکہ ایک سپر پاور کی حیثیت حا صل ہو جا ئے اسی طرح رو س کے بارے میں یہ گما ن کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنی کھو ئی ہو ئی عالمی طا قت کو جلد سے جلد بحال کر نے کی مساعی میں ہے ۔ جب سوویت یو نین کا شیرازہ بکھر ا تھا تو اس لمحے امریکہ نے رو س کی علا قائی بالا دستی کو تسلیم کیا تھا اور سوویت یو نین کے ممالک کو روس کی دولت مشتر کہ اسی طرح تسلیم کرنے کا اعلا ن کیا تھا جس طرح برطانو ی دولت مشترکہ کو تسلیم کیا گیا تھا۔
روسی دولت مشتر کہ کو تسلیم کر نے کا مطلب یہ تھا کہ امر یکہ نے عالمی سطح پر یہ یقین دہا نی کر ائی تھی کہ امریکہ اور اس کے اتحا دی سوویت یونین کی ریا ستوں میں کوئی مداخلت نہیں کر یں گے مگر آنے والے دنو ں نے دیکھا کہ امریکہ نے روس کیلئے مسائل پید ا کئے جس کی وجہ سے روس اور امریکہ میں طا قت کی ایک اور خامو ش جنگ کا آغاز ہو ا جو مشرق وسطیٰ کے حالا ت میں عیا ں ہو چکا ہے۔پاکستان علا قہ کا ایک ایسا ملک ہے جس کو نظر اند از کر نے کی کسی طا قت کے بس کی بات نہیں، افغانستان کے معاملے میں امریکہ چاہے کتنا ہی لا ڈ ہند کیلئے اٹھائے مگر جو کر دار افغانستان میں پاکستان ادا کر سکتا ہے اس کا عشر عشیر بھی ہندکے بس کی بات نہیں ۔
ہند کا شما ر دنیاکے ان ممالک میں ہو تا جو سب سے زیا دہ توانائی خرچ کرنے والے ملک قر ار پا تے ہیں چنا نچہ ہند کی سب سے زیا دہ ضرورت توانائی کے شعبے کو ترقی دینا ہے جبکہ شنگھائی تعاون کے ممالک میں خاص طور پر اسلا می ریا ستیں توانائی کی دولت سے مالا مال ہیں جن سے ہند مستفید ہو سکتا ہے اور اس کے علا وہ ہند جس کو اپنی تجارت کے فروغ کا بھی مسئلہ ہے تووسطی ایشیا کی مسلم ریا ستو ں سے فائد ہ پاسکتا ہے لیکن یہ سب اس کو پاکستان کے تعاون کے بغیر حاصل کرنا ممکن نہیں چنا نچہ اپنے مفادات کے حصول کیلئے اس کو پا کستان کے ساتھ تعلقات بنا کر رکھنا ہو نگے اور اس کر دار سے اجتنا ب کر نا ہو گا جو وہ سارک ممالک میں ادا کرتا رہا ہے جیسا کہ اس نے پا کستان میں منعقد ہو نے والی سارک کا نفر نس کا پاکستان دشمنی میں بائیکا ٹ کر کے کا نفرنس کا ستیا نا س کیا اگر ایسا ہی کر دار وہ ایس سی او میں بھی کر تا رہے تو شاید اس تنظیم کے دوسرے ممالک برداشت نہ کر پائیں گے پھر خود بھی ہندکے مفا د میں نہیں ہے کہ وہ دشمنی کی سیا ست ایسے عالمی اداروں میں پھیلائے ۔
ہند کیلئے یہ لمحہ فکر یہ ہو نا چاہیے کہ وہ علا قے میں امن کے بغیر ترقی اور استحکا م پاسکتا ہے ۔پاکستان کے وزیر اعظم نو از شریف نے رکنیت ملنے کے مو قع پر روس کے صدر ولا دمیر پوٹین ، افغان صدر اشرف غنی ، یو این او کے سیکریٹری جنرل وغیر ہ سے الگ الگ ملا قاتیں کیں ، اس ملا قات کے دوران باہمی تعاون علا قہ میں دہشت گردی کے قلع قمع کرنے جیسے موضوعات کے علا وہ وزیر اعظم پاکستان نے چینی صدر کی اس تجو یز سے بھی اتفاق کیا کہ ایس سی او کے رکن ممالک کے درمیا ن اچھی ہمسائیگی کا 5 سالہ معاہد ہ ہو نا چاہئے ۔ پا کستان کی جانب سے اس تجو یز کی حمایت اس امر کی دلیل ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خاتمے میں مخلص ہے جیسا کہ نو از شریف نے یہ بھی کہا کہ وہ وثوق سے دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان کی سرزمین دہشت گردی کیلئے استعمال نہیں ہو رہی اگر کسی کا دعویٰ ہے تو محض الزام تراشی کی بجائے ثبوت فراہم کر ے پا کستان بھر پور کا رروائی کرے گا ۔ پا کستان کے وزیر اعظم نو از شریف کا یہ دعویٰ درست بنیا دپر ہے جیسا کہ انھو ں نے افغانستان میں مو جو د ملا فضل اللہ کے بارے میں بتایا ، یہ قابل تو جہ بات ہے کہ افغانستان جو آئے دن پا کستان پر الزام تراشی کرتا ہے وہ عالمی برادری کو جو اب دے کہ مبینہ طور پر معروف اس دہشت گردکے خلا ف افغانستان نے کیا کر دار ادا کیا۔
اس کے ساتھ ہی ہند کو بھی اپنے رویے کا جا ئزہ لینا چاہیے او ر چینی صدر پر کھل کر اپنا مو قف بیان کر نا چاہیے کہ وہ اس بات سے کس حد تک متفق ہے ۔ جہا ں تک پا کستان اور ہند کے تعلقات کی بات ہے تو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ ان دونوں میں سے کوئی بھی ملک اس قابل نہیں ہے کہ وہ محدود جنگ جیت سکے کیونکہ دونوں ایٹمی طا قت ہیں۔ سرحد و ںپر کشید گی پائی جاتی ہے اس سے محدو د جنگ کا آغاز محسو س کیا جا سکتا ہے کیونکہ ہندکی یہ پالیسی تھی کہ محدود جنگ کو روبہ عمل لا یا جائے۔ نا معلو م اس کے پالیسی ساز کس سوچ کے تحت محدو د جنگ کی اسٹراٹیجک کو روبہ عمل لا نا چاہتے ہیں۔
اس بارے میں یہ کھلی بات ہے کہ دونو ں ممالک جو ہر ی طاقت ہیں ایسے میں محدو د جنگ ممکن تو کہلا ئی جا سکتی ہے مگر فیصلہ کن قر ار نہیں پا سکتی۔ علا وہ ڈھائی عشرو ں سے دنیا میں جنگ کے انداز تبدیل ہو گئے ہیں اب ہا ئی بر ڈ جنگ کا زما نہ ہے جو سفارتی ، معاشی ، سیا سی اور معلو ما تی بنیا دو ں پر لڑی جا تی ہے جس کا مقصد دشمن پر چڑھا ئی کرنے کے بجائے اس کو بعض شعبو ں میں زک پہنچا کر مفلو ج کر نا ہو تا ہے اور اپنا مطمع بنا نا ہو تا ہے مگر یہ پاکستان کے بارے میں خواب کی باتیں ہیں ۔
پاکستان کی پالیسی ہے کہ ہند کشمیر کے مسلئے کو مسلمہ اصولو ں پر طے کر ے اب تو ہندوستانی نیتاؤ ں نے بھی تسلیم کرلیا ہے کہ کشمیر، ہند کے ہا تھو ں سے نکلا جا رہا ہے ، دوسری پاکستان کی پا لیسی یہ ہے کہ ہند، پا کستان کے ساتھ برابری کی بنیا دپر تعلقات قائم کر ے ۔ پا کستا ن کو طفلی ملک نہ گردانا جائے ۔
بہر حال شنگھائی کا نفر نس کے ممالک ان دونو ں ممالک کے درمیان بھی تعلقات میں خوشگواری پید اکر نے میں کر دار اد ا کرسکتے ہیں۔اس کے ساتھ دونو ں کو خود بھی سوچنا چاہئے۔ دونو ں سارک تنظیم کے بھی اور شنگھائی تعاون تنظیم کے بھی ممبرہیں اور دونو ںتنظیموں کا علاقے کیلئے اہم ترین کر دار بن سکتا ہے۔ دونو ں کی اہمیت مسلمہ ہے اسی لئے دونو ں ممالک خطے کی تنظیمو ں میں شامل کئے جا تے ہیں کیونکہ ان کے بغیر ایسی تنظیمیں بے سود قرار پا تی ہیں ۔