Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈی آئی خان سے گورنر کا انتخاب وزیراعلٰی سے اُلجھنے کے لیے کیا گیا: حاجی غلام علی

خیبر پختونخوا کے سابق گورنر حاجی غلام علی عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد پہلی بار سیاسی صورت حال پر کُھل کر بول پڑے۔
 جے یو آئی کے رہنما نے اردو نیوز سے خصوصی گفتگو کی جس میں اُنہوں نے اپنی جگہ تعینات کیے گئے گورنر فیصل کریم کنڈی کے انتخاب پر بھی سوال اُٹھایا۔ 
انہوں نے وزیراعلٰی علی امین گنڈاپور اور گورنر فیصل کریم کنڈی کے ڈی آئی خان کے ایک ہی حلقے سے تعلق ہونے کو روایت کے برعکس قرار دیا۔
’سیاسی کارکن ہونے کی حیثیت سے میں سمجھتا ہوں کہ ایک ہی یونین کونسل سے وزیراعلٰی اور گورنر کا ہونا اچھی روایت نہیں ہے۔ گورنر کے پاس کوئی اختیار نہیں ہوتا، تاہم ایک وقار ہوتا ہے جس کا خیال رکھنا چاہیے۔‘   
غلام علی کا کہنا تھا کہ ’اگرچہ گورنر کی تعیناتی برسرِاقتدار جماعت کا حق ہے، تاہم وزیراعلٰی کے حلقے سے ہی گورنر کا انتخاب کرنا کوئی اچھی روایت نہیں ہے۔‘
’میرا خیال ہے کہ دونوں بڑے عہدے ایک ہی حلقے کو دینے کا فیصلہ اس لیے کیا گیا تاکہ یہ دونوں آپس میں اُلجھتے رہیں، اس کے پیچھے ایک سوچ ہے تاکہ فلاں کو تکلیف ہو اور فلاں ٹھیک ہو جائے۔‘
سابق گورنر خیبر پختونخوا کا مزید کہنا تھا کہ سوات، ملاکنڈ یا ضم اضلاع کو بھی یہ عہدہ دیا جا سکتا تھا۔ ایک ہی یونین کونسل سے صوبے کے دو بڑے عہدوں کے ہونے سے ریاستی امور نہیں چلتے بلکہ اس سے مشکلات میں اضافہ ہوگا۔
انہوں نے علی امین گنڈاپور اور فیصل کریم کنڈی کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف حالیہ بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’گورنر کو حلف اٹھائے دو روز ہی ہوئے ہیں اور دونوں ایک دوسرے کے خلاف بیانات دینا شروع ہوگئے ہیں۔‘ 
حاجی غلام علی کہتے ہیں کہ ’میرا وزیراعلٰی علی امین گنڈاپور سے اچھا تعلق بن گیا تھا، ہم نے کبھی ایک دوسرے کے خلاف بیان نہیں دیا، اپنی آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے اختیارات استعمال کیے۔‘
وزیراعلٰی اور گورنر خیبر پختونخوا کی ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی
وزیراعلٰی علی امین گنڈاپور نے 5 مئی کو گورنر فیصل کریم کنڈی کی تعیناتی پر کہا تھا کہ ’فارم 47 کی حکومت اور غیرقانونی نوٹیفائیڈ گورنر کی کوئی اہمیت نہیں، اس لیے اُن کی تقریب حلف برادری میں جا کر وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔‘

’علی امین گنڈاپور اور میں نے کبھی ایک دوسرے کے خلاف بیان نہیں دیا، اپنے آئینی اختیارات استعمال کیے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

علی امین گنڈاپور نے 7 مئی کو اپنے ایک اور بیان میں بلاول بھٹو زرداری سے مخاطب ہو کر گورنر کا خیبر پختونخوا ہاؤس میں داخلہ بند کرنے کی دھمکی دی تھی۔ 
دوسری جانب گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی کا جواب میں کہنا تھا کہ ’وزیراعلٰی علی امین گنڈاپور ڈیلیور نہیں کرسکتے، تاہم ہمارا ’گورنر راج‘ لگانے کا کوئی ارادہ نہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’وزیراعلٰی سیاسی شہید بننا چاہتے ہیں،‘ گورنر کا ایک اور موقع پر کہنا تھا کہ ’میں فارم 47 والا نہیں ہوں مگر علی امین گنڈاپور کی طرح اپنی جماعت کو دھوکہ نہیں دیتا۔‘
کیا 8 فروری کے الیکشن میں دھاندلی ہوئی تھی؟
فروری کے عام انتخابات میں نتائج میں تبدیلی کا الزام لگا کر پی ٹی آئی کے علاوہ مولانا فضل الرحمان بھی دھاندلی کا شور مچا رہے ہیں۔ 
اردو نیوز کے سوال پر سابق گورنر حاجی غلام علی نے موقف اپنایا کہ ’میں بحیثیت گورنر ریاست کا نمائندہ تھا، میرا اس سارے عمل سے براہِ راست کوئی واسطہ نہیں تھا۔‘
’پہلی بار فارم 45 اور فارم 47 کے بارے میں اتنا شور مچایا گیا۔ فارم 45 میں کوئی اور جیتا اور فارم 47 میں کوئی دوسرا امیدوار کامیاب ہوا جو کہ ممکن نہیں ہوسکتا، تاہم یہ فیصلہ الیکشن ٹریبیونلز کریں گے۔‘ 
جمعیت علماء اسلام کے رہنما حاجی غلام علی کا کہنا تھا کہ ’ہم نے بھی کئی انتخابات میں حصہ لیا، ہمیشہ ہار جیت کا فیصلہ پولنگ سٹیشن کے نتیجے پر ہوتا ہے۔‘

غلام علی کے مطابق ’گورنر کا عہدہ ڈی آئی خان کے بجائے سوات، ملاکنڈ یا ضم اضلاع کو بھی دیا جا سکتا تھا‘ (فائل فوٹو: اے پی پی)

’الیکشن کے بعد اس طرح کے الزامات نہیں لگنے چاہییں کیونکہ اس سے نفرت میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ ہر صوبے میں دھاندلی کا شور ہو رہا ہے، ریاست کو چاہیے کہ وہ عوامی فیصلے کے تحفظ کو یقینی بنائے اور دھاندلی کے تدارک کے لیے اقدامات کرے۔‘ 
حاجی غلام علی نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن اور عدالتیں موجود ہیں، انہیں دھاندلی کے ان الزامات کا سدِباب کرنا چاہیے، بصورت دیگر عوام اور ریاست میں دُوری سے مستقبل میں مشکلات مزید بڑھیں گی۔‘ 
نگراں وزیراعظم کے کس بیان پر دُکھ ہوا؟
سابق نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اور مسلم لیگ ن کے رہنما حنیف عباسی کے درمیان 4 مئی کو اسلام آباد میں گندم سکینڈل پر تلخ کلامی کا واقعہ پیش آیا۔ اس تکرار میں انوار الحق کاکڑ نے لیگی رہنما سے کہا کہ ’اگر میں نے فارم 47 کی بات کی تو آپ اور آپ کی جماعت منہ چُھپاتے پھریں گے۔‘
سابق گورنر خیبر پختونخوا نے سابق نگراں وزیراعظم کے بیان پر ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’انوار الحق کاکڑ نے حنیف عباسی کے خلاف فارم 47 کی جو بات کی اُس پر مجھے دُکھ ہوا ہے۔‘
’میرے دل میں بھی بہت سی باتیں ہیں لیکن میں اپنے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے وہ باتیں اپنے ساتھ قبر میں لے جاؤں گا۔ نگراں وزیراعظم کے بیان اور عام آدمی کی باتوں میں فرق ہوتا ہے۔‘ 

سابق گورنر کا کہنا تھا کہ ’انوار الحق کاکڑ نے حنیف عباسی کے خلاف فارم 47 کی جو بات کی اُس پر مجھے دُکھ ہوا‘ (فائل فوٹو: اے پی پی)

کیا پی ٹی آئی اور جے یوآئی میں قُربتیں بڑھ رہی ہیں؟
8 فروری کے عام انتخابات کے بعد دو حریف جماعتیں پی ٹی آئی اور جمعیت علماء اسلام ایک دوسرے کے قریب آئی ہیں۔ دونوں جماعتوں کے رہنماؤں نے ایک دوسرے سے ملاقاتیں کیں اور ’دھاندلی‘ کے خلاف بیانیے پر یک زبان ہو کر اپنا موقف بھی پیش کیا۔ 
تاہم غلام علی کے خیال میں ’تحریک انصاف اور جے یو آئی میں قُربتیں نہیں بڑھیں،‘ ان کے مطابق ’دونوں جماعتیں الیکشن میں دھاندلی کے حوالے سے ایک ایجنڈے پر متفق ہیں۔کسی پارٹی کا ایک نقطہ نظر پر دوسری جماعت کے ساتھ اتفاق کرنا ایک وقتی عمل ہوتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان ہمیشہ آئین کی بات کرتے ہیں، وہ کبھی غیر آئینی اقدام کی حمایت نہیں کرتے اور نہ کریں گے۔‘
حاجی غلام علی کہتے ہیں کہ ’میں نے گورنر ہاؤس کے دروازے ہر فرد کے لیے کھول رکھے تھے، ہر سیاسی جماعت کا نمائندہ میرے پاس اپنی درخواست لے کر آتا تھا، میں نے عوامی انداز میں اپنا وقت گزارا جس پر مجھے فخر ہے۔‘ 
واضح رہے کہ جے یوآئی کے رہنما حاجی غلام علی نے 22 نومبر 2022 کو گورنر خیبر پختونخوا کی حیثیت سے حلف اٹھایا تھا اور وہ مئی 2024 تک اپنی ذمہ داریاں انجام دیتے رہے۔
وفاقی حکومت نے رواں ماہ اُن کی جگہ پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکریٹری اطلاعات فیصل کریم کنڈی کو گورنر خیبر پختونخوا کے عہدے کے لیے نامزد کیا جنہوں نے چار مئی کو اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔ 

شیئر: