Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکہ کی کال آنے سے پہلے قیدی نمبر 804 کو رہا کر دیں، مشاہد حسین

پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما اور سابق سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ ’اس وقت پاکستان کی بیشتر سیاسی جماعتیں فارم 47 کی چھتری تلے آکر سرکاری نظام کا حصہ بن گئی ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ایک طرف یہ سرکاری نظام والی جماعتیں ہیں اور دوسری جانب عوامی قوت اور قیدی نمبر 804 ہے۔‘
’8 فروری کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کو اُس کے گھر میں شکست ہوئی اور اس ہار کے بعد ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہوا کا رُخ کس طرف ہے۔‘
اردو نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے مشاہد حسین نے کہا کہ عمران خان سمیت تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کرنا چاہیے اس سے پہلے کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ میں انتخابات جیت کر آپ کو کہیں کہ ’اِنہیں رہا کریں۔‘
انہوں نے مزید کہا ’سابق نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کی جانب سے فارم 47 کا طعنہ دیے جانے کے بعد حقیقت مزید کُھل کر سامنے آگئی ہے کہ اِس وقت پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے پاس جعلی مینڈیٹ ہے۔‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 2024 کے انتخابات کے بعد تمام سیاسی قائدین سرکاری نظام کا حصہ بن گئے ہیں۔
’ابھی کوئی آزاد سیاست نظر نہیں آرہی۔ ابھی تو 8 فروری کے بعد سب سرکاری نظام کا حصہ بن گئے ہیں، اور اِس کی جو بنیاد ہے وہ فارم 47 ہے۔‘
مسلم لیگ ن کے رہنما کہتے ہیں کہ دوسری طرف عوامی قوت ہے جس کی بنیاد فارم 45 ہے اور وہ ایک قیدی ہے 804 نمبر کا، اُس کے اردگرد گُھوم رہی ہے۔
’جتنی بھی سیاسی جماعتیں ہیں وہ ایک طرف فارم 47 کی چھتری تلے آگئی ہیں سرکاری نظام میں اور دوسری طرف دوسری پارٹیاں ہیں۔ اُن کو ہم نے اکٹھا کرنا ہے اور دستِ شفا (ہیلنگ ٹچ) دینا ہے۔‘
اس وقت کسی سیاسی جماعت کی اہمیت نہیں
اُن سے پوچھا گیا کہ کیا وہ مسلم لیگ ن چھوڑ تو نہیں رہے تو مشاہد حسین نے جواب دیا کہ ’اس وقت کسی شخصیت یا سیاسی جماعت کا معاملہ نہیں ہے، اس وقت کسی سیاسی پارٹی کی اہمیت نہیں ہے بلکہ پاکستان اور جمہوریت کی بقا کی اہمیت ہے۔‘
مشاہد حسین کے مطابق ’ہماری پارٹی کو پنجاب میں اتنا بڑا دھچکا لگا ہے۔ 30 سال کی جو سیاست تھی، وہ تو 8 فروری کو ملیامیٹ ہوگئی۔‘

مشاہد حسین کہتے ہیں کہ ’مسلم لیگ ن کو الیکشن میں بڑا دھچکہ لگا، آپ کو سبق سیکھنا چاہیے‘ (فائل فوٹو: مسلم لیگ ن ایکس اکاؤنٹ)

’جو ایک گڑھ تھا، جو ہمارا گھر تھا۔ اگر آپ اپنے گھر میں ہار جائیں، اور نامعلوم افراد سے ہار جائیں، گُمنام لوگوں سے ہار جائیں، تو پھر آپ کو کچھ سبق تو سیکھنا چاہیے نہ کہ ہوا کا رخ کس طرف ہے۔‘
نواز شریف کو وزیراعظم بننے سے منع کیا تو کچھ لوگ ناراض ہو گئے
مشاہد حسین سے پوچھا گیا کہ وہ اس صورت حال میں نواز شریف کو کیا مشورہ دیں گے تو انہوں نے کہا کہ انہوں نے پہلے نواز شریف کو رائے دی تھی کہ وہ وزیراعظم بننے کا نہ سوچیں تو اس پر کئی لوگ اُن سے ناراض ہوگئے۔
’میں نے پہلے بھی رائے دی تھی جب سب کہہ رہے تھے کہ چوتھی بار وزیراعظم بنیں گے میں نے اس وقت بھی مشورہ دیا تھا کہ اس کا امکان نہیں ہے۔‘
سابق سینیٹر کا کہنا ہے کہ ’اگر کچھ کرنا ہے، آپ نے سسٹم میں آنا ہے تو صدر بن سکتے ہیں وزیراعظم کا امکان نہیں،  لوگ مجھ سے ناراض بھی ہوئے کہ آپ نے یہ بات کی وہی بات صحیح ثابت ہوئی۔‘
پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما سابق سینیٹر مشاہد حسین سید نے بات کرتے ہوئے مزید کہا کہ ’حقیقی قائد وہ ہوتا ہے جو زمینی حقائق سے آگاہی رکھتا ہو۔‘
’قیادت وہ ہوتی ہے کہ آپ دیوار پر لکھا پڑھ سکیں۔ آپ کومعلوم ہونا چاہیے کہ کیا حقائق ہیں۔ زمینی حقائق کیا ہیں اور عوامی سوچ کیا ہے۔‘
لوگ جعلی مینڈیٹ کی اصلیت جانتے ہیں
انہوں نے کہا کہ ’فارم 45 اور فارم 47 کی باتیں مذاق بن کر رہ گئی ہیں۔ یہ جو فیصلہ ہوا تھا الیکشن سے پہلے، غلط فیصلہ تھا کہ اب کسی کو (انتخابی نشان) بلا نہیں دینا، اب کیا فائدہ ہوا؟‘ 

سابق سینیٹر کا کہنا تھا کہ ’انوارالحق کاکڑ کی جانب سے فارم 47 کا طعنہ دیے جانے کے بعد مینڈیٹ کی حقیقت سامنے آگئی‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’اب سپریم کورٹ نے بھی معطل کر دیا وہ فیصلہ مخصوص نشستوں کا۔ آپ دیکھ رہے ہیں مذاق بن گیا فارم 45 کیا ہے، فارم 47 کیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’آپ کے ماضی کے جو نگراں وزیراعظم ہیں وہ طعنہ دے رہے ہیں حکمران جماعت کو کہ چُپ ہو جاؤ ورنہ میں تمہاری اصلیت بتا دوں گا کہ تم تو پیداوار ہو فارم 47 کی۔ یعنی کہ آپ کا جعلی مینڈیٹ ہے۔ تو اگر ہمارے اپنے لوگ جانتے ہیں اصلیت کو، تو باہر کے لوگ نہیں جانیں گے۔‘
’اگر آپ کی عزت نہیں ہے اور آپ کو معلوم ہے کہ آپ کس راستے سے آئے ہیں اور یہ یاد رکھیں، جس راستے سے آپ آئے ہیں اُسی راستے سے پھر آپ جا بھی سکتے ہیں۔ اگر آپ نے غلطیاں کرنی ہیں تو نئی غلطیاں کریں، پرانی غلطیاں نہ کریں۔‘ 
امریکی کال آنے سے پہلے عمران خان کو رہا کر دیں
مشاہد حسین نے عمران خان سمیت تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اس بات کا امکان موجود ہے کہ اس معاملے پر امریکہ سے کال آئے، لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ اِس سے پہلے ہی سیاسی قیدیوں کو رہا کر دے۔‘
’امریکہ میں 5 نومبر کو صدارتی الیکشن ہے، اگر ڈونلڈ ٹرمپ جیت گئے اور پھر ایک کال آئے وہاں سے تو کال سے پہلے آپ خود فیصلے کر لیں۔‘
ان کے مطابق ’اقتصادی استحکام کا سیاسی استحکام کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ ہے۔ آپ اُن کو الگ نہیں کر سکتے۔ اگر ملک کو آگے بڑھنا ہے تو سب کو دل بڑا کرنا پڑے گا، اور دماغ کو وسیع کرنا پڑے گا۔‘
مودی اور دہشت گردوں سے مذاکرات کرتے ہیں اپنے لوگوں سے نہیں
مشاہد حسین کا کہنا تھا کہ پاکستانی سیاست دان دوسرے ملکوں سے تو مذاکرات پر آمادہ رہتے ہیں لیکن ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے۔

مشاہد حسین کا کہنا ہے کہ ’حکومت کو چاہیے کہ امریکہ سے کال آنے سے قبل ہی عمران خان کو رہا کر دے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’ایک طرف تو ہم حکومت میں آتے ہی کہتے ہیں کہ ہم انڈیا سے تجارت کرنے کو تیار ہیں، مودی سے بات کرنے کو تیار ہیں، جن کے بندوں نے آکے، را کے بندوں نے آکے چار برسوں میں 20 دفعہ پاکستان کے اندر ہمارے بندے مارے ہیں۔‘
’انہوں نے دہشت گردی کی ہے، دوسری طرف ہمارے بندے جا کے، جنرل، وہ کابل میں جاکے ٹی ٹی پی سے بات بھی کر لیتے ہیں، اُن سے مذاکرات کرتے ہیں، ہم دہشت گردوں سے بھی مذاکرات کرتے ہیں تو اپنے لوگوں سے بات کرنے میں کیا قباحت ہے۔‘
شہباز شریف کے بیانات پر تنقید
مشاہد حسین نے وزیراعظم شہباز شریف کے ملکی معیشت سے متعلق بیانات پر بھی تنقید کی۔ انہوں نے ورلڈ اکنامک فورم میں کہا کہ ’ہمارا جو ریونیو سسٹم ہے، وہ تباہ ہو چکا ہے، ہمارا نظام برباد ہو چکا ہے۔‘
’اگر آپ کہہ رہے ہیں کہ تباہی ہو گئی ہے ہمارے ہاں کرپشن ہو رہی ہے تو جو ایک بااختیار بندہ ہے جو وزیراعظم ہے اگر وہ ہی رونا دھونا شروع کر دے کہ جی ہم مارے گئے، لُٹ گئے تو وہ کہیں گے کہ آپ کے دانے ’مُکے ہوئے ہیں‘ (وسائل ختم ہیں) تو پھر آپ کیا کر رہے ہیں اِس کرسی پر بیٹھے، آپ گھر جائیں پھر۔‘
ایک فوجی سربراہ نے ایٹمی دھماکوں کی مخالفت کی اور ایک نے نواز شریف کو اختیار دیا
مشاہد حسین نے نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں ایٹمی دھماکے کرنے کے فیصلے کی تعریف کی اور کہا کہ اس وقت افواج کے سربراہان کی مختلف آرا کے باوجود نواز شریف نے قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے ایٹمی دھماکے کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
’اس وقت ایٹمی دھماکوں کا فیصلہ سویلین فیصلہ تھا۔ تین مسلح افواج کے سربراہان تھے، ایک نے دھماکوں کی مخالفت کی، ایک نے حمایت کی اور ایک نے کہا کہ آپ فیصلہ کریں، نواز شریف نے قیادت کا مظاہرہ کیا اور دھماکوں کا فیصلہ کیا۔‘

شیئر: