Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں احتجاج، پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن ہڑتال کا اعلان

ڈڈیال میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں جس کے بعد دیگر شہروں میں احتجاج کا آغاز ہو گیا (فائل فوٹو: اردو نیوز)
پاکستان کے زیرانتظام جموں کشمیر میں گزشتہ ایک برس سے بجلی کے بھاری بِلز اور مہنگائی کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے اور آج ڈڈیال شہر میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم بھی ہوا ہے۔
کشمیر کے ضلع میرپور کی تحصیل ڈڈیال میں پولیس کی جانب جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے کارکنوں کی گرفتاریوں کے خلاف احتجاج کے بعد صورت حال اس وقت کشیدہ ہو گئی جب ڈڈیال کے اسسٹنٹ کمشنر پولیس کے ہمراہ مظاہرین کو منتشر کرنے پہنچے۔
جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے 11 مئی کو ریاستی دارالحکومت مظفرآباد کی جانب لانگ مارچ کا اعلان کر رکھا تھا اور مختلف شہروں میں اس کے لیے مہم چلائی جا رہی تھی۔
دوسری جانب حکومت اس لانگ مارچ سے نمٹنے کے لیے تیاریاں کر رہی تھی۔ اس سلسلے میں گزشتہ دنوں کشمیر کے مختلف شہروں میں پولیس کا فلیگ مارچ بھی ہوا اور محکمہ صحت نے 11 مئی کو ہسپتالوں کے عملے کو حاضر رہنے اور ایمرجنسی وارڈز کے 25 فیصد بیڈ خالی رکھنے کا حکم بھی دیا تھا۔ اس کئے علاوہ ریاست بھر میں دفعہ 144 بھی نافذ کی گئی ہے۔
آئی جی کشمیر پولیس کا موقف
پاکستان کے زیرانتظام جموں کشمیر کے انسپیکٹر جنرل سہیل حبیب تاج تاجک نے کہا ہے کہ ’یہ پرامن خطہ ہے جو کسی مہم جوئی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ عوامی ایکشن کمیٹی کے احتجاج کے دوران امن و امان کو بحال رکھنے کے لیے ساڑھے پانچ ہزار پولیس اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔‘
آئی جی نے جمعرات کو مقامی میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ’ہم نے کچھ گروپس پکڑے ہیں جن میں پچیس پچیس لوگ شامل تھے جو ڈی سٹیبلائز کرنے کے لیے ہندوستانی انٹیلی جنس ایجنسیز کے پیڈ ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’احتجاجی مظاہروں کے نتیجے میں سیاح آزاد کشمیر کا رخ نہیں کریں گے۔‘
ڈڈیال میں کیا واقعہ ہوا؟
آج (جمعرات کو) سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ڈڈیال شہر کی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مظاہرین اور انتظامیہ کے اہلکاروں کے درمیان تلخ کلامی اور ہاتھا پائی ہو رہی ہے۔ اس دوران پولیس مظاہرین پر لاٹھی چارج کرتی دکھائی دیتی ہے۔ اس کے بعد مظاہرین ایک سرکاری گاڑی کو الٹ رہے ہیں۔
ایک اور ویڈیو میں اسی گاڑی کو نذرآتش کیے جانے کے مناظر بھی ہیں۔ مقامی افراد کے مطابق یہ اسسٹنٹ کمشنر کی گاڑی تھی۔
ڈڈیال میں پولیس کی مظاہرین پر آنسو گیس کی شیلنگ کے دوران ایک سرکاری سکول میں امتحان دینے والی طالبات بھی متاثر ہوئی ہیں جنہیں ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔ طالبات کی ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر زیرِگردش ہیں۔

آنسو گیس کی شیلنگ کے دوران ایک سرکاری سکول میں امتحان دینے والی طالبات بھی متاثر ہوئیں (فائل فوٹو: سکرین گریب)

کشمیر کے سنیئر وزیر کرنل (ریٹائرڈ) وقار نور نے اس واقعے کے بعد کہا ہے کہ ’جب پولیس نے سرکاری افسر کو یرغمال بنانے والے گروہ پر شیلنگ کی تو ان میں سے کسی نے ایک شیل اٹھا کر سکول میں پھینک دیا جس سے بچیاں متاثر ہوئیں۔ ایک بچی کی ہلاکت کی خبر جھوٹ ہے۔‘
ڈڈیال میں مظاہرین اور پولیس کے تصادم کے بعد کشمیر کے دیگر شہروں میں بھی احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے ہیں۔
عوامی ایکشن کمیٹی کا مکمل لاک ڈاؤن کا اعلان
دوسری جانب جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنما شوکت نواز میر کی ایک ویڈیو بھی منظر عام پر آئی ہے جس میں انہوں نے آج رات 12 بجے سے کشمیر میں مکمل شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔
شوکت نواز میر نے کہا کہ ’آج ڈڈیال میں پولیس اور انتظامیہ نے جو پرتشدد اقدامات کیے ہیں۔ اس کے بعد ہم نے جو 11 مئی کی کال دی تھی، اسے ریورس کرتے ہوئے اعلان کرتا ہوں کہ آج رات 12 بجے سے پورے کشمیر میں پہیہ جام اور مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال ہو گی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میری تمام اہلیان کشمیر سے گزارش ہے کہ اپنے حق کے لیے باہر نکلیں، اگر آج آپ نہیں نکلیں گے تو کبھی بھی آپ اپنا حق نہیں لے سکیں گے۔‘

عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنما شوکت نواز میر نے کشمیر میں مکمل لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا (فائل فوٹو: سکرین گریب)

عوامی ایکشن کمیٹی اور حکومت کے بے نتیجہ مذاکرات
گزشتہ ایک برس کے دوران احتجاجی مظاہروں، پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن ہڑتالوں کے بعد جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی قیادت اور حکومتی کمیٹی کے درمیان مذاکرات کے کئی دور ہوئے لیکن معاملہ کسی حتمی حل تک نہ پہنچ سکا۔
19 دسمبر کو حکومت اور جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے درمیان مذاکرات کے بعد ایک تحریر سامنے آئی تھی جس میں حکومت نے کہا تھا کہ ’بجلی کی فی یونٹ لاگت کے علاوہ تمام معاملات یکسو ہو چکے ہیں۔‘
اس تحریر میں حکومتی مصالحتی کمیٹی کے رکن وزیر کرنل (ریٹائرڈ) وقار نور نے بجلی سے جڑے معاملات دو ہفتوں میں میں یکسو کرنے کی یقین دہائی کرائی گئی تھی تاہم اس پر بھی عمل نہ ہو سکا۔

جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی اور حکومت کے درمیان مذاکرات کے کئی دور ہوئے لیکن معاملات حتمی طور پر حل نہ ہو سکے (فائل فوٹو: سکرین گریب)

پھر دوبارہ مذاکرات کے نتیجے میں رواں برس چار فروری کو کشمیر کی حکومت کے سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ نے عوامی ایکشن کمیٹی کے بعض مطالبات پر عمل درآمد کے لیے ایک نوٹیفیکشن جاری کیا تھا۔
اسی روز ایک اور سات نکاتی معاہدہ بھی منظرعام پر آیا تھا جس پر حکومتی مصالحتی کمیٹی میں شامل وزرا اور جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں کے دستخط تھے۔
اس کے کچھ عرصہ بعد بعد عوامی ایکشن کمیٹی نے الزام عائد کیا کہ حکومت معاہدے میں طے شدہ امور پر عمل نہیں کر رہی ہے۔ اس کے بعد 13 فروری کو عوامی ایکشن کمیٹی نے اعلان کیا کہ 30 اپریل کے بعد کوئی مذکرات نہیں ہوں گے اور مطالبات پورے نہ ہونے پر 11 مئی کو دارالحکومت مظفرآباد کی جانب لانگ مارچ کیا جائے گا۔
آج ڈڈیال میں جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے عہدے داروں کی گرفتاریوں اور پولیس کے ساتھ مظاہرین کے تصادم کے بعد عوامی ایکشن کمیٹی نے لانگ مارچ کی کال واپس لے کر رات 12 بجے سے پورے کشمیر میں شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کر اعلان کر دیا ہے۔

آئی جی پولیس سہیل حبیب تاجک نے کہا کہ ’احتجاج کے دوران امن و امان کو بحال رکھنے کے لیے ساڑھے پانچ ہزار اہلکار تعینات کیے گئے ہیں‘ (فوٹو: سکرین گریب)

کشمیر میں ایف سی اور پی سی کی تعیناتی کا معاملہ
گزشتہ ہفتے پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کی حکومت کی جانب سے پنجاب کانسٹیبلری (پی سی) اور فرنٹیئر کانسٹیبلری(ایف سی) بلائے جانے کے وفاقی حکومت کے نام مکتوب سامنے آنے پر عوامی ایکشن کمیٹی نے الزام عائد کیا تھا کہ یہ دستے 11 مئی کے لانگ مارچ سے نمٹنے کے لیے بلائے گئے ہیں تاہم کشمیر کے وزیراعظم انوار الحق نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’چینی ورکرز پر بشام میں ہونے والے حملے کے بعد یہ اہلکار کشمیر میں بجلی کے منصوبوں پر کام کرنے والے غیرملکی کارکنوں کی حفاظت کے لیے بلوائے گئے ہیں۔‘
آج (جمعرات کو) کشمیر کے سینیئر وزیر اور وزیر داخلہ کرنل (ریٹائرڈ) وقار نور نے دیگر وزرا کے ہمراہ پریس کانفرنس میں کہا کہ ’لا اینڈ آرڈر کے لیے ہم نے اپنی پولیس کو تعینات کیا ہے۔ آپ کو کوئی بھی ایف سی یا پی سی اہلکار سڑکوں پر دکھائی نہیں دے گا۔ اس بارے میں جان بوجھ کر بے بنیاد پروپیگنڈا کیا گیا اور انتشار پھیلانے کی کوشش ہوئی۔‘
انہوں نے ڈڈیال کے واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’آج ڈڈیال میں جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ انتظامیہ نے امن و امان بحال کرنے کے لیے انتہائی محدود کارروائی کی۔ میں انہیں عوامی ایکشن کمیٹی نہیں بلکہ شرپسند کہوں گا۔ وہاں ریاست کے ایک عہدے دار کو یرغمال بنایا گیا اور اس پر تشدد کیا گیا۔‘

کشمیر کے سینیئر وزیر کرنل (ریٹائرڈ) وقار نور نے کہا کہ ’لا اینڈ آرڈر کے لیے ہم نے اپنی پولیس کو تعینات کیا ہے۔‘ (فائل فوٹو سکرین گریب)

وقار نور نے کہا کہ ’ہم آج بھی سنجیدہ افراد کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن آج کے بعد کسی نے امن میں خلل ڈالا تو حکومت اس کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹے گی۔‘
تعلیمی اداروں میں چھٹیوں کا اعلان
اگلے دور دن میں امن و امان کے ممکنہ حالات کے پیش نظر کشمیر کے مختلف شہروں کو تعلیمی اداروں میں دو روز کے لیے چھٹیوں کا اعلان بھی کیا ہے۔ دارالحکومت مظفرآباد میں 10 اور 11 مئی کو تعلیمی ادارے اور ضلعی دفاتر بند رہیں گے۔
دوسری جانب 12 مئی شیڈول کو کشمیر پبلک سروس کمیشن کے امتحان بھی ملتوی کر دیے گئے ہیں۔
مظفرآباد کے بازاروں میں گاہکوں کا رش
پاکستان کے زیراتنظام کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد کے ایک صحافی سید اشفاق حسین شاہ نے بتایا کہ ’حکومتی اقدامات اور جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی لاک ڈاؤن کی کال کے بعد بازاروں میں شہریوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ وہ اگلے چند دن کے لیے کھانے پینے کا سامان خرید رہے ہیں۔‘ سوشل میڈیا پر کچھ سبزی کی دکانوں کی تصاویر بھی پوسٹ کی جا رہی ہیں جو تقریباً خالی ہو چکی ہیں۔ 

شیئر: