’مکمل طور پر بے بس‘، افغانستان تباہ کن سیلاب کے بعد امداد کا منتظر
’مکمل طور پر بے بس‘، افغانستان تباہ کن سیلاب کے بعد امداد کا منتظر
پیر 13 مئی 2024 7:53
شمالی افغانستان میں آنے والے تباہ کن سیلاب سے بچ جانے والے لوگ ضروری امداد کے بغیر اپنی مدد آپ کے تحت کوشش کر رہے ہیں۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق مرنے والوں کی تعداد 300 سے زیادہ ہو گئی۔
عرب نیوز کے مطابق افغانستان کی وزارت برائے مہاجرین نے کہا ہے کہ جمعے کو شدید بارشوں کی وجہ سے کم از کم سات صوبوں بشمول بغلان، غور، بدخشاں اور تخار میں سیلاب آیا، جس کے نتیجے میں 1600 سے زائد افراد زخمی اور تقریباً 2600 مکانات تباہ ہوئے۔
بہت سے لوگ اب بھی لاپتہ ہیں اور سیلاب میں لوگوں کے مال مویشی بھی بہہ گئے۔ حکام اور امدادی اداروں نے امدادی کارکن متاثرہ صوبوں میں بھیجے ہیں۔
اتورا کو افغانستان کے اقتصادی امور کے نائب وزیر ملا عبدالغنی برادر اخوند نے بغلان صوبے میں متاثرین کو بتایا کہ ’تمام دستیاب وسائل کو متحرک کیا جا رہا ہے اور متعلقہ وزارتیں اور ایجنسیاں فوری امداد کی فراہمی میں سرگرم عمل ہیں۔‘
انہوں نے متاثرین کو طالبان کے مدد کی یقین دہانی بھی کرائی تاہم صوبے میں کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ امداد ابھی تک نہیں پہنچی۔
صوبے کے ضلع برکہ کے رہائشی غلام نبی نے عرب نیوز کو فون پر بتایا کہ ’ہمیں ابھی تک حکومت یا امدادی اداروں سے کوئی امداد نہیں ملا ہے۔ ہر کوئی آتا ہے اور ہم سے سوالات پوچھتا ہے، پھر وہ واپس چلے جاتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہم نے اپنے گھر اور اپنی زندگیاں کھو دیں۔ ہمارے پاس جو کچھ تھا وہ اب مٹی کے نیچے ہے۔ زرعی اراضی اور مویشی جو ہمارے معاش کا واحد ذریعہ ہے، بھی مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔ ہمارے پاس اپنے لیے کھانا پکانے کے لیے کچھ نہیں۔‘
حکام نے بتایا کہ اپریل کے وسط سے اچانک سیلاب نے افغانستان کے 10 صوبوں میں تقریباً 100 افراد کی جان لے لی۔
حالیہ دنوں میں زرعی زمین ایک ایسے ملک میں سیلاب سے متاثر ہوئی ہے جہاں 41 ملین سے زیادہ لوگوں میں سے 80 فیصد زندہ رہنے کے لیے زراعت پر انحصار کرتے ہیں۔
امدادی ادارے سیو دی چلڈرن نے کہا ہے کہ بغلان کے پانچ اضلاع میں رہائش پذیر تقریباً چھ لاکھ افراد، جن میں سے نصف بچے ہیں، حالیہ سیلاب سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت نے ایک بیان میں کہا کہ طبی مراکز غیرفعال ہونے کی وجہ سے لوگ طبی امداد حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
احساس ویلفیئر اینڈ سوشل سروسز آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر عبدالفتاح جواد نے کہا کہ سیلاب سے بچ جانے والے بہت سے لوگ اب بھی صدمے میں ہیں۔
’لوگ بہت خوفزدہ اور صدمے سے دوچار ہیں۔ سیلاب سے بچ جانے والوں نے مکانات خالی ہو کر دیے ہیں کیونکہ ان کو مزید سیلاب کا خدشہ ہے۔ لوگوں نے رہائشی مکانات سے دور سکولوں کے صحن اور ویران علاقوں میں پناہ لی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ لوگوں کو خوراک، پینے کے پانی، ادویات، خیمے، کمبل اور رہائش جیسی بنیادی اشیا کی فوری ضرورت ہے۔ سنیچر سے ان کی تنظیم سینکڑوں خاندانوں کے لیے پکا ہوا کھانا پہنچانے کا انتظام کر چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’لوگوں خاص طور پر بچوں کو کچھ کھانے کی ضرورت ہے۔۔۔ انہیں اپنے گھروں اور اپنے کاروبار کو دوبارہ بنانے کے لیے نقد رقم کی بھی ضرورت ہو گی۔ کچھ خاندانوں نے سب کچھ کھو دیا۔ مکان، زمین، مویشی، کاروبار۔ وہ مکمل طور پر بے بس ہیں۔‘