Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

افغانستان میں تباہ کن سیلاب سے 300 سے زیادہ ہلاکتیں، ایمرجنسی نافذ

بارشوں اور سیلاب سے غلان کا صوبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام نے کہا ہے کہ متعدد افغان صوبوں میں آنے والے سیلاب میں 300 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق حکام نے متاثرہ صوبوں میں ہنگامی حالت کا اعلان کر دیا ہے۔
جمعے کو ہونے والی شدید بارشوں کے بعد کئی صوبوں میں بہت سے لوگ لاپتہ ہیں۔ ایک امدادی تنظیم نے اسے ’بڑی انسانی ہنگامی صورتحال‘ قرار دیا ہے۔
حکومت اور امدادی اداروں کی طرف سے فراہم کردہ ہلاکتوں کی تعداد میں فرق ہے۔
دوسری جانب قطر میں افغان طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا ہے کہ حالیہ بارشوں اور سیلاب سے کم سے کم 234 افراد ہلاک اور 248 زخمی ہو گئے۔
اتوار کو بھیجے گئے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ 19 ہزار 70 ایکڑ زمین سیلاب میں بہہ گئی ہے۔
ان کے مطابق متعلقہ حکام فوری مدد فراہم کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں اور بھاری نقصان کے پیش نظر مزید امداد کی ضرورت ہے۔
اے ایف پی کے مطابق شمالی بغلان کا صوبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جہاں 300 سے زیادہ لوگ ہلاک اور ہزاروں گھر تباہ ہوئے۔

سیلاب کی وجہ سے مکانات کو شدید نقصان پہنچا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ورلڈ فوڈ پروگرام کے کمیونیکیشن افسر رانا دراز نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’اب تک کے معلومات کے مطابق صوبہ بغلان میں 311 ہلاکتیں ہوئیں، دو ہزار 11 مکانات تباہ اور 28 سو کو نقصان پہنچا۔‘
اقوام متحدہ کی انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن نے کہا ہے کہ بغلان میں 218 اموات ہوئیں۔
وزارت داخلہ کے ترجمان عبدالمتین قانی نے اے ایف پی کو بتایا کہ ہلاکتوں کی تعداد بڑ سکتی ہیں۔ ’بہت سے لوگ اب بھی لاپتہ ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ شمالی صوبہ تخار میں مزید 20 اور ہمسایہ صوبے بدخشاں میں دو افراد ہلاک ہوئے۔
کابل میں طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایکس پر ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ہمارے سینکڑوں شہری تباہ کن سیلاب میں ہلاک ہو گئے۔‘
حکام نے بتایا ہے کہ موسلادھار بارشوں کی وجہ سے بغلان، تخار اور بدخشاں کے ساتھ ساتھ مغربی غور اور ہرات کے صوبوں میں شدید نقصان ہوا ہے۔

بعض لوگوں نے محفوظ مقامات پر پناہ لی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

بغلان کے صوبائی دارالحکومت پل خمری کے رہائشی جان محمد دین محمد نے کہا کہ ’میرا گھر اور میری پوری زندگی سیلاب میں بہہ گئی۔‘
ان کا خاندان ایک اونچے مقام پر پناہ لینے میں کامیاب ہو گیا تھا لیکن جب موسم صاف ہو گیا اور وہ گھر واپس آئے تو ’وہاں کچھ بھی نہیں بچا تھا، میرا سارا سامان اور میرا گھر تباہ ہو چکا تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میں نہیں جانتا کہ اپنے خاندان کو کہاں لے جاؤں... مجھے نہیں معلوم کہ کیا کروں۔‘
ہنگامی حالت کا اعلان
امدادی کارکن زخمیوں اور پھنسے ہوئے افغانوں کو بچانے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔
افغان فضائیہ نے کہا ہے کہ اس نے سنیچر کو مطلع صاف ہونے کے بعد انخلا کی کارروائیاں شروع کی ہیں اور 100 سے زائد زخمیوں کو ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔
فضائیہ کے مطابق ’(متاثرہ) علاقوں میں ہنگامی حالت کا اعلان کرتے ہوئے وزارت قومی دفاع نے متاثرہ لوگوں میں خوراک، ادویات اور ابتدائی طبی امداد کی تقسیم شروع کر دی ہے۔‘
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے افغانستان میں سیلاب سے ہونے والے نقصان پر افسوس اور متاثرین سے یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔
سیکریٹری جنرل کے ترجمان سٹیفن ڈوجیرک کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ اور افغانستان میں اس کے شراکت دار متاثرین کی ضروریات کا اندازہ لگانے اور فوری مدد پہنچانے کے لیے ملکی حکام کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔

ہرات میں سیلاب کے بعد ایک افغان خاتون اپنے گھر کے صحن کو صاف کر رہی ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

بین الاقوامی ریسکیو کمیٹی (آئی آر سی) نے کہا ہے کہ سیلاب کو ’خطرے کی گھنٹی‘ کے طور پر لینا چاہیے جو عالمی رہنماؤں اور امداد دینے والوں کو یاد دلا رہا ہے کہ وہ کئی دہائیوں کے تنازعات اور قدرتی آفات سے گھرے ہوئے ملک کو نہ بھولیں۔
آئی آر سی کی کنٹری ڈائریکٹر سلمیٰ بن عیسٰی نے ایک بیان میں کہا کہ ’ان تازہ ترین سیلابوں نے افغانستان میں ایک بڑی انسانی ہنگامی صورتحال پیدا کر دی ہے۔‘
حکام نے بتایا کہ اپریل کے وسط سے اچانک سیلاب نے افغانستان کے 10 صوبوں میں تقریباً 100 افراد کی جان لے لی۔
حالیہ دنوں میں زرعی زمین ایک ایسے ملک میں سیلاب سے متاثر ہوئی ہے جہاں 40 ملین سے زیادہ لوگوں میں سے 80 فیصد زندہ رہنے کے لیے زراعت پر انحصار کرتے ہیں۔

شیئر: