الطاف دور کا تنظیمی ڈھانچہ بھی ختم: ’کہیں اور کا حکم‘ یا سیاسی مجبوری
الطاف دور کا تنظیمی ڈھانچہ بھی ختم: ’کہیں اور کا حکم‘ یا سیاسی مجبوری
پیر 13 مئی 2024 13:50
زین علی -اردو نیوز، کراچی
ترجمان ایم کیو ایم پاکستان کے مطابق مرکزی کمیٹی نے اجلاس میں متفقہ طور پر سابق کنوینئر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کو ایم کیو ایم پاکستان کا چیئرمین منتخب کیا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان میں ان دنوں ازسر نو تنظیم سازی کا عمل جاری ہے۔ رابطہ کمیٹی کے تحلیل ہونے کے بعد ایڈہاک کمیٹی نے متفقہ طور پر سنیچر کو ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کو پارٹی کا چیئرمین منتخب کر لیا ہے۔ اس اعلان کے بعد سابق سربراہ متحدہ اب چیئرمین کی حیثیت سے جماعت کی ذمہ داریاں نبھائیں گے۔
ایم کیو ایم کے بانی ارکان میں شامل عظیم احمد طارق کے بعد پہلی بار اس جماعت میں چیئرمین کا عہدہ کسی اور رہنما کو دیا گیا ہے۔ اس سے قبل ایم کیو ایم کا تنظیمی ڈھانچہ رابطہ کمیٹی کے تحت چلایا جا رہا تھا، جس میں کنوینئر، ڈپٹی کنوینئر سمیت دیگر عہدے شامل تھے۔
ترجمان ایم کیو ایم پاکستان احسن غوری کے مطابق ایم کیو ایم پاکستان کی ایڈہاک کمیٹی کا ایک اہم اجلاس اتوار کو پاکستان ہاؤس میں منتقعد ہوا۔ اس اجلاس میں متحدہ پاکستان کی ازسر نو تنظیم سازی سمیت تنظیمی امور پر ہونے والے اجلاسوں کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں سید مصطفیٰ کمال، ڈاکٹر فاروق ستار، نسرین جلیل، انیس احمد قائم خانی، فیصل سبزواری، سید امین الحق اور رضوان بابر شریک تھے۔
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ مرکزی کمیٹی نے اس اجلاس میں متفقہ طور پر سابق کنوینئر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کو ایم کیو ایم پاکستان کا چیئرمین منتخب کیا۔ اجلاس میں مرکزی کمیٹی اور سیاسی امور پر معاونت کے لیے ایک اعلٰی سطحی مرکزی کونسل کی تشکیل کا بھی فیصلہ کیا گیا۔
واضح رہے کہ اس نئے نظام کے ساتھ برسوں سے کراچی سمیت سندھ کے شہری علاقوں میں چلنے والا ایم کیو ایم کا رابطہ کمیٹی کا تنظیمی ڈھانچہ غیرفعال ہو گیا ہے۔ بانی ایم کیو ایم الطاف حسین کا نافذ کیا گیا تنظیمی سٹرکچر اب اہم کام کرتا نظر نہیں آئے گا۔
نیا تنظیمی نظام کیسے کام کرے گا؟
ترجمان ایم کیو ایم کے مطابق نئے تنظیمی ڈھانچے میں اب چیئرمین اور وائس چیئرمین کے عہدے فعال ہوں گے، ان کے علاوہ مختلف شعبہ جات کے تحت چلنے والے کام کونسل کے ذریعے چلائے جائیں گے۔ ایم کیو ایم پاکستان کے تحت چلنے والی مزدور تنظیم لیبر ڈویژن اور طلبا تنظیم آل پاکستان متحدہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن اپنی موجودہ حیثیت میں ہی کام کرتی رہیں گی۔
تنظیمی ڈھانچہ کیوں تبدیل کرنا پڑ رہا ہے؟
ایم کیو ایم پاکستان کی ایڈہاک کمیٹی کے ایک سینیئر رکن نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’ایم کیو ایم پاکستان اب ایسی جماعت کی صورت اختیار کر چکی ہے جس کے تمام فیصلے اب پاکستان میں ہی کیے جا رہے ہیں، اس سے قبل الطاف حسین کے لندن میں ہونے کی وجہ سے دو مختلف کمیٹیاں کام کرتی تھیں، جو لندن اور پاکستان کے درمیان ناصرف تنظیمی رابطہ بحال رکھتی تھیں بلکہ تنظیم کو سیکٹر سے لے کر یونٹ کے لیول تک کنڑول کرتی تھیں۔ لیکن 22 اگست کے بعد یہ سلسلہ ختم ہو چکا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اب پاکستان میں کام کرنے والی ایم کیو ایم اپنے تمام تنظیمی اور سیاسی فیصلے کراچی سے سمیت سندھ کے شہری علاقوں سے کر رہی ہے۔ اس لیے موجودہ صورتحال میں رابطہ کمیٹی کا سیٹ اپ پارٹی کے لیے فائدہ مند نہیں ہے، اس کے باوجود اب بھی ایڈہاک کمیٹی کے کچھ ارکان کا کہنا ہے کہ متحدہ کو اپنا رابطہ کمیٹی کا سسٹم بحال رکھنا چاہیے کیونکہ یہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں سے منفرد ہونے کے ساتھ ساتھ تنظیمی سسٹم کو چلانے میں مفید رہا ہے۔
’ایم کیو ایم کی ماضی جیسی پوزیشن نہیں رہی‘
تاہم سیاسی مبصرین اس فیصلے کو ’کہیں اور کے‘ احکامات قرار دے رہے ہیں۔
سیاسی تجزیہ کار رفعت سعید کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان میں ماضی کی ایم کیو ایم جیسا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔ موجودہ متحدہ ماضی کے مقابلے میں ناصرف کمزور ہے بلکہ اپنے فیصلے کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ایم کیو ایم کو طاقتور حلقوں کی جانب سے یہ واضح پیغام دے دیا گیا ہے کہ وہ الطاف حسین سے جڑی تمام روایات کو خود سے دور کر لیں۔‘
رفعت سعید کے مطابق اس کی پہلی مثال کراچی میں سیکٹرز کو ٹاون اور یونٹس کو یو سی میں تبدیل کرنے کی صورت میں نظر آئی تھی۔ اب ایڈہاک کمیٹی نے رابطہ کمیٹی کے سسٹم کے بجائے کونسل کا نظام بحال کرنے کی بات کی ہے, تو یہ اور واضح ہو جاتا ہے کہ ملک سے چلنے والی پارٹی کو اب لندن سے رابطے میں نہیں رہنا ہے تو رابطہ کمیٹی کی بھی ضرورت نہیں ہے۔
’ماضی کی ایم کیو ایم پر بھی اگر نظر ڈالی جائے تو چیئرمین کا عہدہ ایم کیو ایم میں انتہائی اہمیت کا حامل رہا ہے، اور عہدے پر تعینات ہونے والے عظیم احمد طارق کو بھی اپنی زندگی میں اس عہدے اور قائد کے فرق کو بیان کرنے کی ضرورت پیش آتی رہی ہے۔ عظیم احمد طارق جو ایم کیو ایم کے بانی ارکان میں شامل تھے، انہیں بھی اس عہدے نے اتنا پریشان کیا کہ انہیں جگہ جگہ جا کر یہ کہنا پڑا کہ وہ پارٹی کے چیئرمین ہیں، قائد نہیں۔‘
اس حوالے سے سابق وائس چانسلر وفاقی اردو یونیورسٹی ڈاکٹر توصیف احمد خان کا کہنا تھا کہ موجودہ ایم کیو ایم پاکستان کراچی سمیت سندھ کے شہری علاقوں میں اس پوزیشن میں نہیں ہے جیسے ماضی میں ہوا کرتی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم پاکستان کے پاس الطاف حسین کے الگ ہونے کے بعد اب قومی اور صوبائی اسمبلی میں اچھی نشستیں ہیں لیکن اس کی حیثیت وفاق اور صوبے میں ناہونے کے برابر ہے۔
’حکومت سازی سے لے کر دیگر معاملات میں ایم کیو ایم پاکستان اپنے مطالبات منوانے میں تقریباً ناکام نظر ہی آئی ہے، اس کی کئی وجوہات ہیں جن میں ایک موجودہ تنظیمی پوزیشن بھی ہے۔‘