کشمیر: رینجرز اور مظاہرین کے درمیان تصادم میں تین ہلاک، کمیٹی کا یوم سوگ کا اعلان
کشمیر: رینجرز اور مظاہرین کے درمیان تصادم میں تین ہلاک، کمیٹی کا یوم سوگ کا اعلان
پیر 13 مئی 2024 17:50
جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے مظاہرین کے قافلے مظفرآباد شہر میں داخل ہو رہے ہیں (فائل فوٹو: سکرین گریب)
پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کی حکومت کی جانب سے جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے مطالبے پر بجلی اور آٹے کی قیمتوں میں کمی کے اعلان کے چند گھنٹے بعد دارالحکومت مظفرآباد میں حالات کشیدہ ہو گئے۔
رینجرز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپ میں آٹھ افراد زخمی ہوگئے جن میں سے تین دوران علاج دم توڑ گئے۔
مظفرآباد کی مرکزی عیدگاہ کے ساتھ متصل ایگروٹیک گراؤنڈ میں ریلی کے شرکا سے رات گئے خطاب کرتے ہوئے جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے مرکزی رہنما شوکت نواز میر نے شرکا سے کہا کہ وہ پرامن رہے۔
انہوں نے کہا کہ آٹے اور بجلی کی قیمتوں میں جو کمی ہوئی ہے یہ آپ کی کامیابی ہے۔ ’ہم لاشوں پر سیاست نہیں کریں گے لیکن حکومت کے غلط اقدامات کی وجہ سے ہمارے دو نوجوانوں کی جانیں گئیں۔‘
شوکت نواز میر نے کہا کہ ہم کسی کی ذاتی تسکین یا سیاست کے لیے ایکشن کمیٹی کو استعمال نہیں کرنے دیں گے۔ ’ہم ایک اجتماعی کاز کے لیے نکلے تھے۔‘
انہوں نے کہا کہ مظاہرین کی ہلاکت کے حوالے وہ لائحہ عمل ترتیب دیں گے۔
رات گئے جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے کور کمیٹی کا اجلاس مظفر آباد میں ہوا جس کے بعد آج یوم سوگ منانے کا اعلان کیا گیا۔
کمیٹی نے کہا کہ بجلی کا ٹیرف ٹیکس فری ہوگا اور اشرافیہ کے مراعات ختم کرنے کے حوالے سے جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے گا۔
قبل ازیں گوجرہ میں مظاہرین اور رینجرز کے درمیان جھڑپ ہوئی ہے جس میں گولی لگنے سے دو نوجوانوں کی موت جبکہ متعدد مظاہرین زخمی ہوئے ۔ رپورٹس کے مطابق زخمیوں کو علاج کے لیے سی ایم ایچ منتقل کیا گیا ہے۔
حکومت کی جانب سے جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے مطالبات کی منظوری کے بعد پیر کو دھیرکوٹ میں رکے ہوئے لانگ مارچ کے شرکا کو مظفرآباد جانے کی اجازت دے دی گئی تھی اور انتظامیہ نے ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اس سے پہلے پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے بھی کشمیر کے لیے 23 ارب روپے کی منظوری کا اعلان بھی کیا گیا تھا۔
وزیراعظم پاکستان کی جانب سے فنڈز کی منظوری کے بعد کشمیرحکومت نے بجلی اور آٹا سستا کرنے کے علیحدہ علیحدہ نوٹفکیشن جاری کیے۔
محکمہ خوراک کے نوٹیفیکشن کے مطابق آٹے کی فی 40 کلوگرام قیمت دو ہزار روپے مقرر کر دی گئی ہے جبکہ 20 کلو آٹے کی قیمت ایک ہزار روپے مقرر کی گئی۔
محکمہ بجلی و آبی وسائل نے بھی بجلی کی قیمتوں میں کمی کا نوٹیفیکشن جاری کیا۔
نوٹیفیکشن کے مطابق 100 یونٹ تک بجلی کی قیمت تین روپے فی یونٹ، 100 سے 300 یونٹس تک پانچ روپے جبکہ 300 سے زائد یونٹس کی قیمت چھ روپے فی یونٹ مقرر کی گئی ہے۔
کمرشل استعمال کی بجلی ایک سے 300 یونٹس تک 10 روپے جبکہ 300 سے زائد یونٹس کی قیمت 15 روپے فی یونٹ ہو گی۔
ان اعلانات کے بعد مظاہرین کے قافلے دارالحکومت مظفرآباد پہنچنا شروع ہو گئے تھے اور مقامی ایکشن کمیٹی کے ذمہ داران مظاہرین کا استقبال کر رہے تھے۔
تمام اضلاع سے مظاہرین کے قافلوں کے شہر پہنچنے کے بعد جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی جانب سے ایک جلسہ عام بھی متوقع تھا۔
تاہم اس کے بعد اچانک شہر کے حالات بگڑ گئے۔
عینی شاہدین کے مطابق مظفرآباد میں پاکستان رینجرز کے دستے ایبٹ آباد روڈ، گوجرہ سے داخل ہوئے تو مظاہرین نے نعرے بازی کی۔ اس دوران جھڑپوں میں متعدد افراد زخمی ہوئے۔ بعدازاں دو افراد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جان کی بازی ہار گئے۔
اس سے چند گھنٹے قبل صوبہ خیبرپختونخوا اور کشمیر کے سرحد پر علاقے برارکوٹ میں بھی مظاہرین نے رینجرز کے قافلے پر پتھراؤ کیا تھا جس کے بعد ان کی گاڑیاں واپس لوٹتی دکھائی دی تھیں۔
تاہم شام کو ایک مرتبہ پھر رینجرز کی گاڑیاں مظفرآباد کی حدود میں داخل ہو گئیں اور اس بعد گوجرہ بائی پاس پر ان کا مظاہرین سے تصادم ہوا۔
اس واقعے کے بعد مظاہرین کی جانب سے رینجرز کی دو گاڑیوں کو آگ بھی لگا دی گئی۔
آنسو گیس کی شیلنگ اور ہوائی فائرنگ
دوسری جانب انتظامیہ نے قانون ساز اسمبلی کے سامنے چھتر چوک میں مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے شیل فائر کیے اور ہوائی فائرنگ بھی کی۔
اس کے علاوہ چھتر ہائی کورٹ گراؤنڈ میں تین ہیلی کاپٹر کے ذریعے پیرا ملٹری سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو بھی اتارا گیا۔
شام ساڑھے چھ بجے مقامی صحافی سید اشفاق شاہ نے اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ’اس وقت شہر کی صورت حال پھر کشیدہ ہے۔ بھاری پیمانے پر آنسو گیس کی شیلنگ اور فائرنگ ہو رہی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’لانگ مارچ کے قافلے شہر میں داخل ہو رہے تھے اور ان کا امبور اور چھتر کے مقام پر مقامی مظاہرین استقبال کر رہے تھے کہ اچانک گوجرہ میں مظاہرین اور رینجرز کے درمیان تصادم ہوا اور حالات بگڑ گئے۔‘
انٹرنیٹ سروس ایک مرتبہ پھر معطل
حکومت کی جانب سے جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے مطالبات تسلیم کیے جانے کے بعد پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں دو دن سے معطل انٹرنیٹ سروس بحال کر دی گئی تھی لیکن حالات کشیدہ ہونے پر ایک مرتبہ پھر انٹرنیٹ بند کر دیا گیا ہے۔
صحافی سید اشفاق شاہ نے بتایا کہ ’اس وقت شہر میں صرف لینڈلائن انٹرنیٹ محدود پیمانے پر کام کر رہا ہے۔‘
پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں مہنگی بجلی اور مہنگے آٹے سمیت دیگر مطالبات کے لیے احتجاج کرنے والی جوائنٹ جموں کشمیر عوامی ایکشن کمیٹی کا لانگ مارچ 10 مئی کو شروع ہوا تھا۔
اتوار کی شب راولاکوٹ میں حکومتی نمائندوں اورعوامی ایکشن کمیٹی کے درمیان مذاکرات ناکام ہو گئے تھے جس کے بعد قافلے مظفرآباد کی جانب چل پڑے تھے۔
پیر کو جب لانگ مارچ کے شرکا دھیرکوٹ میں ٹھہرے ہوئے تھے تو حکومت نے بجلی اور آٹے کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کر دیا اور عوامی ایکشن کمیٹی کو مظفرآباد میں داخل ہونے کی اجازت دے دی۔
شام کو حالات خراب ہونے کے بعد لانگ کے مارچ کے شرکا کی بڑی تعداد شہر کے داخلی راستے میں واقع امبور بازار میں رک گئی تھی۔
اس کے بعد مظاہرین نے امبور بازار میں دھرنا دے دیا تھا تاہم شام ساڑھے سات بجے لانگ مارچ شہر میں داخل ہو گیا۔
پاکستان کی زیرانتظام کشمیر کی حکومت کی جانب سے تازہ ترین صورت حال پر تاحال کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن کا اظہار تشویش
ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے بھی پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں پرتشدد واقعات کی مذمت کرتے ہوئے صورت حال کی تحقیق کا اعلان کیا ہے۔
پیر کو جاری کردہ بیان میں کمیشن نے کہا کہ ’ایچ آر سی پی کو آزاد جموں و کشمیر میں جاری تشدد پر شدید تشویش ہے۔ ہم حکام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ مظاہرین کی شکایات کا فی الفور اور پُرامن طریقے سے ازالہ کیا جائے۔ علاقے کے عوام کے مناسب اور جائز مطالبات تسلیم کیے جائیں اور اُن کے بنیادی حقوق کا احترام کیا جائے۔‘
بیان میں مزید کہا گیا کہ ’ایچ آر سی پی اے جے کے میں انسانی حقوق کے کارکنوں سے رابطے میں ہے اور صورت ِحال کی تحقیقات کے لیے علاقے میں فیکٹ فائنڈنگ مِشن بھیجنے کا ارادہ رکھتا ہے۔‘