گزشتہ ایک برس سے مسسلسل سراپا احتجاج جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے مرکزی رہنما شوکت نواز میر نے منگل کی صبح اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ انہوں نے اپنے مطالبات پورے ہو جانے کے بعد احتجاج اور پہیہ جام ہڑتال تو ختم کر دی ہے لیکن اپنے تین ورکرز کی ہلاکت پر یوم سوگ منا رہے ہیں اور اس مقصد کے لیے آج سہہ پہر تین بجے تک بازار اور مارکیٹیں بند رہیں گی۔
اُردو نیوز کے نمائندے فرحان خان کے مطابق پانچ دن شٹر ڈاؤن، پہیہ جام ہڑتال اور کشیدگی کے بعد آج معمولات زندگی بحال ہو رہے ہیں۔
پیر کو کشمیر کے تمام اضلاع سے احتجاجی مظاہرین کے جو قافلے ایک لانگ مارچ کی صورت میں مظفرآباد پہنچے تھے، رات کو عوامی ایکشن کمیٹی کا احتجاج ختم کرنے کا اعلامیہ جاری ہونے کے بعد واپس لوٹ رہے ہیں۔
کشمیر میں گزشتہ روز ایک مرتبہ پھر انٹرنیٹ سروس بند کر دی گئی تھی جو ابھی بحال نہیں ہوئی تاہم توقع کی جا رہی ہے کہ تین بجے کے بعد انٹرنیٹ سروس بحال ہونا شروع ہو جائے گی۔
ریاستی دارالحکومت مظفرآباد میں تعلیمی ادارے آج بھی بند رہیں گے۔
دوسری جانب عوامی ایکشن کمیٹی نے اپنے کارکنوں کی ہلاکت پر ایف آئی آر درج کرانے کا اعلان اور اس کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔
’ملک کو بڑے سانحے سے بچا لیا‘
وفاقی وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ نے منگل کو اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’وزیراعظم کے بروقت نوٹس نے ملک کو ایک بہت برے سانحے سے بچا لیا ہے۔ گذشتہ روز وزیراعظم نے تمام سٹیک ہولڈرز کو بلایا اور ان کی بات سُنی۔ کشمیر کے ایشو کے حل کے لیے فوری اقدامات کیے گئے۔ آزاد کشمیر کی طرف کسی کو میلی آنکھ سے نہیں دیکھنے دیں گے۔‘
پاکستان کے زیرِانتطام کشمیر میں صورتحال کیسے کشیدہ ہوئی؟
پیر کی شام حکومت کی جانب سے بجلی اور آٹے کی قیمتوں میں کمی کے اعلان کے چند گھنٹے بعد دارالحکومت مظفرآباد میں حالات کشیدہ ہو گئے تھے۔
رینجرز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپ میں آٹھ افراد زخمی ہوگئے جن میں سے تین دوران علاج دم توڑ گئے۔
شوکت نواز میر نے شرکا سے کہا کہ وہ پُرامن رہیں۔ ’آٹے اور بجلی کی قیمتوں میں جو کمی ہوئی ہے یہ آپ کی کامیابی ہے۔‘
حکومت کی جانب سے جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے مطالبات کی منظوری کے بعد پیر کو دھیرکوٹ میں رکے ہوئے لانگ مارچ کے شرکا کو مظفرآباد جانے کی اجازت دے دی گئی تھی اور انتظامیہ نے ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اس سے پہلے پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے کشمیر کے لیے 23 ارب روپے کی منظوری کا اعلان بھی کیا گیا تھا۔
وزیراعظم پاکستان کی جانب سے فنڈز کی منظوری کے بعد کشمیر حکومت نے بجلی اور آٹا سستا کرنے کے علیحدہ علیحدہ نوٹیفیکیشن جاری کیے۔
محکمہ خوراک کے نوٹیفیکیشن کے مطابق آٹے کی فی 40 کلوگرام قیمت دو ہزار روپے مقرر کر دی گئی ہے جبکہ 20 کلو آٹے کی قیمت ایک ہزار روپے مقرر کی گئی۔
محکمہ بجلی و آبی وسائل نے بھی بجلی کی قیمتوں میں کمی کا نوٹیفیکیشن جاری کیا تھا۔
نوٹیفیکیشن کے مطابق 100 یونٹ تک بجلی کی قیمت تین روپے فی یونٹ، 100 سے 300 یونٹس تک پانچ روپے جبکہ 300 سے زائد یونٹس کی قیمت چھ روپے فی یونٹ مقرر کی گئی ہے۔
کمرشل استعمال کی بجلی ایک سے 300 یونٹس تک 10 روپے جبکہ 300 سے زائد یونٹس کی قیمت 15 روپے فی یونٹ ہو گی۔
ان اعلانات کے بعد مظاہرین کے قافلے دارالحکومت مظفرآباد پہنچنا شروع ہو گئے تھے اور مقامی ایکشن کمیٹی کے ذمہ داران مظاہرین کا استقبال کر رہے تھے تاہم اس کے بعد اچانک شہر کے حالات بگڑ گئے۔
عینی شاہدین کے مطابق مظفرآباد میں پاکستان رینجرز کے دستے ایبٹ آباد روڈ، گوجرہ سے داخل ہوئے تو مظاہرین نے نعرے بازی کی۔ اس دوران جھڑپوں میں متعدد افراد زخمی ہوئے۔ بعدازاں دو افراد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جان کی بازی ہار گئے۔
اس سے چند گھنٹے قبل صوبہ خیبرپختونخوا اور کشمیر کی سرحد پر برارکوٹ میں بھی مظاہرین نے رینجرز کے قافلے پر پتھراؤ کیا تھا جس کے بعد ان کی گاڑیاں واپس لوٹتی دکھائی دی تھیں۔
تاہم شام کو ایک مرتبہ پھر رینجرز کی گاڑیاں مظفرآباد کی حدود میں داخل ہو گئیں اور اس کے بعد گوجرہ بائی پاس پر ان کا مظاہرین سے تصادم ہوا۔ اس واقعے کے بعد مظاہرین کی جانب سے رینجرز کی دو گاڑیوں کو آگ بھی لگا دی گئی۔
آنسو گیس کی شیلنگ اور ہوائی فائرنگ
دوسری جانب انتظامیہ نے قانون ساز اسمبلی کے سامنے چھتر چوک میں مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے شیل فائر کیے اور ہوائی فائرنگ بھی کی۔
اس کے علاوہ چھتر ہائی کورٹ گراؤنڈ میں تین ہیلی کاپٹرز کے ذریعے پیرا ملٹری سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو بھی اُتارا گیا۔
شام کو حالات خراب ہونے کے بعد لانگ مارچ کے شرکا کی بڑی تعداد شہر کے داخلی راستے میں واقع امبور بازار میں رک گئی تھی۔
اس کے بعد مظاہرین نے امبور بازار میں دھرنا دے دیا تھا تاہم شام ساڑھے سات بجے لانگ مارچ شہر میں داخل ہو گیا۔
ہیومن رائٹس کمیشن کا اظہار تشویش
ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے بھی پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں پرتشدد واقعات کی مذمت کرتے ہوئے صورت حال کی تحقیق کرنے کا اعلان کیا ہے۔
پیر کو جاری کردہ بیان میں کمیشن نے کہا کہ ’ایچ آر سی پی کو آزاد جموں و کشمیر میں جاری تشدد پر شدید تشویش ہے۔ ہم حکام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ مظاہرین کی شکایات کا فی الفور اور پُرامن طریقے سے ازالہ کیا جائے۔ علاقے کے عوام کے مناسب اور جائز مطالبات تسلیم کیے جائیں اور اُن کے بنیادی حقوق کا احترام کیا جائے۔‘
بیان میں مزید کہا گیا کہ ’ایچ آر سی پی اے جے کے میں انسانی حقوق کے کارکنوں سے رابطے میں ہے اور صورت ِحال کی تحقیقات کے لیے علاقے میں فیکٹ فائنڈنگ مِشن بھیجنے کا ارادہ رکھتا ہے۔‘
ہلاک ہونے والے افراد کی نماز جنازہ
احتجاج کے دوران جان سے جانے والے افراد کی نماز جنازہ دن دو بجے یونیورسٹی گراونڈ میں ادا کی جائے گی۔