Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کشمیر میں جاری عوامی احتجاج اس حد تک بگڑ کیوں گیا؟

جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے ریلی کے شرکا مظفر آباد میں داخل ہو رہے ہیں۔ (فوٹو: سکرین گریب)
گذشتہ پانچ روز سے پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں بجلی اور آٹے کی قیمتوں میں کمی کے لیے جاری احتجاج مطالبات منظور ہونے کے باوجود بھی ختم نہیں ہوا اور کشمیر کی ریاستی اور پاکستان کی وفاقی حکومت کے لیے سبکی کا باعث بنا ہوا ہے۔
گذشتہ ایک سال سے جاری اس احتجاجی مہم کو کشمیر کی حکومت نے پہلے نظر انداز کیا اور وفاقی حکومت کی طرف سے بھی کوئی توجہ نہیں دی گئی۔
لیکن پیر کے روز جب مظاہرین ریاست کے دارالحکومت مظفرآباد کی طرف بڑھنا شروع ہوئے تو وفاقی حکومت نے اچانک 23 ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کر دیا جب کہ ریاست جموں کشمیر حکومت نے مظاہرین کے مطالبے پر بجلی کے نرخوں میں کمی کر دی۔
اس کے بعد توقع کی جارہی تھی کہ احتجاج ختم ہو جائے گا لیکن مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے مابین جھڑپیں رات تک جاری رہیں۔
مبصرین کا خیال ہے کہ انتظامیہ نے یہ مسئلہ حل کرنے میں تاخیر سے کام لے کر اس کو بڑھا دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کو اب حالات سنبھالنے میں مشکل پیش آ رہی ہے۔
سیاسیات کے پروفیسر اور پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے سابق نگران وزیراعلٰی ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کے مطابق اس احتجاج میں شدت کشمیر اور پاکستان دونوں حکومتوں کی طرف سے اس معاملے کی اہمیت کو نہ سمجھنے اور وقت ٹالنے کی حکمت عملی کی وجہ سے آئی۔
اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’یہ معاملہ ہفتے، دو ہفتے سے نہیں بلکہ طویل عرصے سے چل رہا ہے۔ ان حکمرانوں کو پہلے ہوش نہیں تھا اور آج انہوں نے اچانک سے قیمتیں کم کرنے کا اعلان کر دیا۔‘
’اب یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ قیمت کم کرنے سے بجلی کی پیداواری لاگت اور اس پر عائد ہونے والے ٹیکسز کیسے پورے ہوں گے۔‘

مطالبات ماننے میں تاخیر

ڈاکٹر حسن عسکری نے کہا کہ اگر حکومت یہ احتجاج شروع ہوتے ہی مظاہرین سے مذاکرات کرتی تو کسی دباؤ کا شکار نہ ہوتی اور معاملے کو بآسانی خوش اسلوبی سے حل کر لیا جاتا۔

فرحت میر کے مطابق حالات زیادہ خراب ہونے کی بڑی وجہ عوامی نمائندوں کا لوگوں کے درمیان  نہ ہونا بھی ہے۔ (فوٹو: سکرین گریب)

لوگوں کے معاشی مسائل بہت بڑھ چکے ہیں لیکن حکومت کو احساس نہیں ہے۔ حکومت کو لوگوں کے مسائل کا احساس کرتے ہوئے ان کو کم سے کم کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔‘
حسن عسکری کے مطابق حکومت کی ساکھ بالکل نہیں ہے، لوگوں کا ان پر اعتماد نہیں ہے۔ یہ جب تقریر کرتے ہیں تو لگتا ہے کہ مہنگائی بہت کم ہو گئی ہے، جب بازار جاتے ہیں تو وہی نرخ ہوتے ہیں۔

کشمیر حکومت کا غیر سنجیدہ رویہ

کشمیر کے سابق چیف سیکرٹری فرحت میر کے خیال میں حکومت نے جو قدم آج اٹھایا ہے یہ چھ ماہ پہلے اٹھا لیتی تو حالات خراب نہ ہوتے۔
انہوں نے کہا کہ کشمیر کی حکومت نے اس مسئلے پر سنجیدگی اختیار نہیں کی اور یہ بات سمجھ نہیں آ رہی کہ وزیراعظم آزاد کشمیر نے اس کے حل میں تاخیر کیوں کی۔
انہوں نے کہا کہ ’نہ تو حکومت مذاکرات میں سنجیدہ تھی اور نہ ہی مذاکراتی کمیٹی کے پاس اختیارات نہیں تھے۔‘

فرحت میر کا کہنا ہے کہ ’سیاستدانوں کو عوام کے پاس ہونا چاہیئے تھا لیکن وہ سارے اسلام آباد میں بیٹھے ہیں۔ (فوٹو: ایکشن کمیٹی)

فرحت میر کے مطابق حالات زیادہ خراب ہونے کی بڑی وجہ عوامی نمائندوں کا لوگوں کے درمیان اور ان سے رابطے میں نہ ہونا بھی ہے۔
’سیاستدانوں کو عوام کے پاس ہونا چاہیئے تھا، وہ سارے اسلام آباد میں بیٹھے ہیں، کوئی آصف ذرداری کو مل رہا ہے، کوئی شہباز شریف کو اور کوئی کسی اور کو۔‘
انہوں نے کہا کہ حالات کو اس نہج پر نہیں آنا چاہیے تھا کہ مسئلے کو ہوا دی جائے اور لوگوں، نوجوانوں اور بچوں کو احتجاج کا نیا رستہ دکھایا جائے۔
’اب بھی انہیں چاہیے کہ لوگوں کے ساتھ تعلق جوڑ کر انہیں سمجھائیں۔ ان کے جذبات ٹھنڈے کریں اور اس معاملے کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے لئے کوئی مدبرانہ رویہ اپنائیں۔‘

شیئر: