Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عدلیہ میں مبینہ مداخلت پر جسٹس بابر ستار کا چیف جسٹس کو ایک اور خط

جسٹس بابر ستار نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق نے نام خط لکھا (فائل فوٹو: اسلام آباد ہائی کورٹ
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس بابر ستار نے عدالتی عمل میں مداخلت سے متعلق چیف جسٹس عامر فاروق کے نام ایک اور خط لکھا ہے۔
منگل کو منظرعام پر آنے والے خط میں جسٹس بابر ستار نے کہا کہ ’مجھے ایک کیس کے سلسلے میں پیغام دیا گیا کہ پیچھے ہٹ جاؤ۔‘
انہوں نے لکھا کہ’اب عدالت کے سامنے یہ سوال ہے کہ کیا شہریوں کی ایسی جاسوسی کی کوئی قانونی بنیاد موجود ہے۔‘
دوسری جانب وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور اٹارنی جنرل آف پاکستان نے اپنے وضاحتی بیانات میں کہا ہے کہ بالواسطہ طور پر حساس معاملات کے کچھ حصوں کی اِن کیمرہ سماعت کی درخواست کی گئی تھی۔ عدلیہ اور حکومت کے تعلقات کے خراب ہونے کا تأثر درست نہیں۔‘
جسٹس بابر ستار نے اپنے خط میں مزید لکھا کہ ’میں نے اس طرح کے دھمکی آمیز حربے پر کوئی توجہ نہیں دی۔ میں نے یہ نہیں سمجھا کہ اس طرح کے پیغامات سے انصاف کے عمل کو کافی نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔‘
خط کے متن کے مطابق جسٹس بابر ستار نے کہا کہ ’پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی (پی ٹی اے) سے متعلقہ مقدمات کے بارے میں بدنیتی پر مبنی مہم کا فوکس عدالتی کارروائی کو متاثر کرنا ہے۔‘
کہا گیا حساس معاملات کی سماعت اِن کیمرہ کی جائے: وزیر قانون
جسٹس بابر ستار کا خط سامنے آنے کے بعد وفاقی وزیر قانون  اعظم نذیر تارڑ نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ’تأثر دیا گیا کہ خفیہ ادارے مداخلت کرنا چاہتے ہیں۔  اٹارنی جنرل آفس نے یہ کہا تھا کہ سماعت کا کچھ حصہ اِن کیمرہ کیا جائے کیونکہ معاملہ حساس ہے۔ نیشنل سکیورٹی کے ایشوز ہیں۔‘
’اس کے بعد تأثر دیا گیا کہ خفیہ ادارے ججوں کے کام میں مداخلت کر رہے ہیں۔  کسی اسٹیبلشمنٹ کے افسر نے رابطہ کیا نہ کرے گا۔‘
کوئی ریاستی ادارہ عدلیہ کے عمل میں مداخلت نہیں کرتا: اٹارنی جنرل
اس سے قبل منگل ہی کو اٹارنی جنرل آف پاکستان منصور عثمان اعوان نے بھی ایک ویڈیو پیغام جاری کیا۔
منصور عثمان اعوان نے خط کے مندرجات پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ریاست کے کچھ حساس معاملات ہوتے ہیں۔ اس خط سے تأثر دیا جا رہا ہے کہ عدلیہ اور انتظامیہ کے تعلقات خراب ہیں حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’حکومت یا کوئی بھی ریاستی ادارہ عدلیہ کے عمل میں مداخلت کر سکتا ہے اور نہ کرتا ہے۔‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’میری معلومات کے مطابق کسی ادارے کے عہدےدار نے براہ راست رابطہ نہیں کیا۔ بالواسطہ اٹارنی جنرل آفس کے ذریعے کہا گیا کہ سکیورٹی کے حساس معاملات کی اِن کیمرہ سماعت کی جائے۔‘
 

شیئر: