کیا صوبہ پنجاب میں پولیس مقابلوں کا دور واپس آ رہا ہے؟
کیا صوبہ پنجاب میں پولیس مقابلوں کا دور واپس آ رہا ہے؟
بدھ 15 مئی 2024 6:22
رائے شاہنواز -اردو نیوز، لاہور
پولیس کے مطابق مارے گئے فیضان کو سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے پکڑا گیا تھا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں 12 مئی کی رات کو ایک پولیس مقابلہ ہوا۔ کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث چار دہشت گرد اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک گئے ہیں۔‘
ان چار مبینہ دہشت گردوں میں سے ایک ملزم فیضان پہلے ہی پولیس حراست میں تھا۔ اور اس پر کم از کم دو پولیس اہلکاروں کو ٹارگٹڈ کلنگ میں مارنے کا الزام تھا۔
مارے گئے باقی تین ملزمان سے متعلق ابھی پولیس یہ تصدیق نہیں کر پائی کہ وہ کون ہیں۔ اس مبینہ پولیس مقابلے کے بعد پولیس کی جانب سے جاری کیا جانے والا پورا بیان کچھ یوں ہے کہ ’لاہور میں پولیس افسران کی ٹارگٹ کلنگ کے حالیہ واقعات میں گرفتار مرکزی ملزم محمد فیضان نے دوران تفتیش یہ انکشاف کیا کہ اس نے دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ میں استعمال ہونے والا اسلحہ کرول جنگل میں چھپایا ہے جس پر ملزم کو اس جگہ لے جایا گیا تو دو ہینڈ گرنیڈ اور دو پستول ملے۔‘
پولیس کے بیان کے مطابق ’اسی دوران کرول گاؤں سے چھ موٹر سائیکل سوار نمودار ہوئے اورپولیس پر فائرنگ شروع کر دی۔ پولیس نے اپنی حفاظت کے لیے جوابی فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ملزم فیضان اور تین نامعلوم دہشت گرد اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہو گئے۔ جبکہ باقی تین دہشت گرد اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔‘
خیال رہے کہ 20 سالہ فیضان کا تعلق لاہور کے علاقے الفلاح ٹاون سے تھا۔ ان کے والد بادامی باغ میں ایک سٹیل مل میں مینیجر ہیں۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق ان پر چودہ سال کی عمر میں تھانہ شاہدرہ میں ایک ایف آئی آر درج ہوئی جو کہ غیر قانونی پستول رکھنے کی وجہ سے تھی۔ اسی طرح پندرہ سال کی عمر میں 2018 میں بھی تھانہ شادباغ میں ان پر ایف آئی آر درج ہوئی جو اسلحہ سے متعلق تھی۔ تیسری اور آخری ایف آئی آر 2021 میں ہوئی جس میں ان پر بارودی مواد رکھنے کا الزام تھا۔
ان کا نام پولیس کی واچ لسٹ میں بھی شامل تھا۔ پولیس کو دیے گئے ملزم کے اعترافی بیان کے مطابق جو کہ عدالت میں بھی جمع کروایا گیا ہے فیضان نے کہا تھا کہ سی ٹی ڈی نے ان کو جعلی مقدمے میں جیل بھیجا اور وہ اب اس کا بدلہ لینا چاہتے تھے۔ جیل میں انہیں دہشت گرد ملے جنہوں نے ضمانت کروائی اور افغانستان بھیج دیا جہاں سے ٹریننگ کر کے وہ واپس آئے اور دو پولیس اہلکاروں کو قتل کیا۔
پولیس نے ایک سب انسپکٹر اور ایک کانسٹبل کی اچانک ہلاکت کے بعد سی سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے نشاندہی پر الفلاح ٹاؤن سے ملزم فیضان کو پکڑ لیا اور ریمانڈ کے لیے عدالت بھی پیش کیا تاہم جلد ہی یہ بیان جاری کر دیا گیا کہ ایک پولیس مقابلے کےدوران وہ اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہو گئے۔
گزشتہ مہینے 8 اپریل لاہور کے علاقے شاہدرہ میں دو ڈاکوؤں نے ایک دکان پر باپ کے سامنے بیٹی کو فائرنگ کر کے قتل کیا تھا۔ سی سی ٹی وی فوٹیج جس میں یہ واقعہ دیکھا جا سکتا ہے سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔ اور پھردو روز بعد پولیس نے واقعے میں ملوث ٹوپی گینگ کے انہی دو مبینہ ڈاکوؤں کو ایک مقابلے میں مارنے کا دعویٰ کیا۔
بارہ مئی کو ہی لاہور میں ایک اور واقعہ ہوا جس میں پاکپتن پولیس نے لاہور کے علاقے نواب ٹاؤن میں ایک شخص فیصل بٹ کو پولیس مقابلے میں ہلاک کرنے کا دعوی کیا تاہم ہلاک ہونے والے شخص کی بیٹی کا دعویٰ ہے کہ ان کے باپ ایک تاجر ہیں اور پولیس نے انہیں ہمارے سامنے قتل کیا۔
پاکپتن پولیس پرائیویٹ گاڑیوں میں ایک یوسف بٹ نامی شخص کو گرفتار کرنے پہنچی تاہم ان کے بھائی فیصل بٹ نے ڈاکو سمجھ کر فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں خلیل نامی پولیس اہلکار ہلاک ہو گیا جبکہ موقع پر ہی فیصل بٹ کو مار دیا گیا۔
ڈی آئی جی آپریشن لاہور فیصل کامران کے مطابق یہ بات درست ہے ک فیصل بٹ ایک تاجر تھے لیکن انہوں نے پولیس پر فائرنگ کی جوابی فائرنگ میں وہ خود بھی ہلاک ہو گئے۔
پولیس ریکارڈ کےمطابق اس سال مئی تک صوبائی دارالحکومت لاہور میں مجموعی طور پولیس مقابلوں تعداد 40 سے تجاوز کر چکی ہے۔ جبکہ پنجاب بھر میں یہ تعداد 80 سے زائد ہے۔
خیال رہے کہ پنجاب میں جب بھی شہباز شریف وزیراعلٰی رہے تو پولیس مقابلوں میں اضافہ دیکھا گیا، ان کو خود مشہور زمانہ سبزہ زار پولیس مقابلے کا کیس بھی بھگتنا پڑا۔ جس میں وہ بعد ازاں ورثا کی جانب سے کیس واپس لینے پر بری بھی ہو گئے۔
تو کیا پنجاب میں پولیس مقابلوں کا دور واپس آ رہا ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے فوجداری مقدمات کے ماہر وکیل آفتاب باجوہ کا کہنا ہے کہ ’پولیس مقابلے تو کبھی ختم نہیں ہوئے اور یہ طریقہ کار پولیس کے اندر رچ بس گیا ہے اس کو نکالنا بہت مشکل ہے۔ اور اس میں صرف پولیس کا قصور بھی نہیں۔ سیاسی طور پر غیریقینی صورت حال نے اداروں کا ارتقا بھی روک دیا ہے۔ حکومت اپنے سیاسی معاملات میں الجھی ہوئی ہے اور پولیس پتا نہیں کہاں کہاں سے احکامات لے رہی ہے۔ تو ایسے میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ پولیس مقابلوں میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔‘
وکیل آفتاب باجوہ نے کہا کہ ’جس طرح عدالتوں کی حکم عدولی ہو رہی ہے تو پولیس کی من مانیاں بھی بڑھ گئی ہیں۔ ماورائے عدالتی قتل اور اغوا پر تو اوپر سے نیچے تک سارا عدالتی نظام بے بس معلوم ہوتا ہے۔ ویسے تو ہر پولیس مقابلے کی جوڈیشل انکوائری کرنا قانون کا حصہ ہے لیکن آپ دیکھیں کتنی انکوائریاں سامنے لائی گئیں؟‘
بڑھتے ہوئے پولیس مقابلوں کے حوالے سے جب آئی جی پنجاب آفس سے رابطہ کیا گیا تو وہ جواب دینے کے لیے دستیاب نہیں تھے۔